سلسلہ: اخلاقیات
موضوع: شوہر کی فرمان برداری
*اُمِّ انس عطاریہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے خانگی زندگی کی بہتری کے لئے کچھ اصول و ضوابط عطا فرمائے ہیں جو خواتین ان کا خیال رکھتی ہیں ان کی زندگی سکون سے گزرتی ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ خانگی زندگی کے تمام رہنما اصولوں کی اصل یہ ہے کہ شریعت نے گھریلو نظام کو مضبوط بننے کے لئے گھر کی سربراہی اور قیادت مرد کو عطا فرمائی ہے اور عورت کو اس کا ماتحت بنایا ہے، تو بے جا نہ ہو گا،جیسا کہ ارشادِ الٰہی ہے
اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ (پ 5، النسآء: 34)
ترجمہ:مرد عورتوں پر نگہبان ہیں۔
یعنی مرد عورت پر حاکم ہے،لہٰذا عورت کو مرد کى اطاعت و فرمان برداری کرنی ہے،اس کے بجائے اگر عورت چاہے کہ شوہر میری مانے اور میرا فرمان برداری ہو تو یہ درست نہیں۔نت نئی فرمائشیں مثلاً:طرح طرح کے کھانوں،نِت نئے ڈیزائن کے کپڑوں وغیرہ کی طلب پوری کرنا شوہر پر واجب نہیں ۔ واجب صرف نان نفقہ وغیرہ ہے،البتہ اگر شوہر دیگر فرمائشیں بھی پوری کرتا ہے تو یہ بیوی پر احسان ہو گا۔نیز اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مرد خواتین کے لئے سائبان اور بہترین محافظ کی حیثیت رکھتے ہیں،خواتین کے قیام و طعام اور آرام وغیرہ کا اہتمام کرنے کے ذمہ دار ہیں۔ گھر کے سربراہ ان مردوں کے ہوتے ہوئے کوئی بھی ان کی خواتین کو میلی نظر سے نہیں دیکھ سکتا،سفر ہو یا حضر یہ حضرات ہر جگہ اپنی خواتین کے آرام کا خیال رکھتے اور ان کی خواہشات پوری کرنے کی کوشش میں خوب محنت کرتے ہیں۔
اصولِ دنیا ہے کہ جو ہم پر احسان کرے، ہمارا بوجھ اٹھائے ہمیں کھلائے پلائے اس کا احسان ہی نہ مانا جائے بلکہ اگر وہ کچھ کہے اور خلافِ شرع نہ ہو تو اس کی بات بھی مانی جائے۔ چنانچہ شادی کے بعد ہر عورت پر لازم ہے کہ وہ اپنے شوہر کی اطاعت و فرمان برداری کرے کہ اس پر سب سے زیادہ احسان کرنے والا اس کا شوہر ہوتا ہے اور شریعت نے بھی اس کا حق عورت پر اس کے والدین سے بھی زیادہ ٹھہرایا ہے۔جیساکہ ایک روایت میں بھی ہے:عورت پر سب سے زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے۔([1])بلکہ ایک روایت میں ہے:قسم ہے اس کی جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے!اگر قدم سے سر تک شوہر کے تمام جسم میں زخم ہوں جن سے پیپ اور پیپ ملا خون بہتا ہو پھر عورت اسے چاٹے تب بھی حقِ شوہر ادا نہ کیا۔ (2)
افسوس!بعض خواتین شوہر کے مقابلے میں اپنے والدین وغیرہ کو زیادہ اہمیت دیتی ہیں۔ ایسی خواتین جو شادی کے بعد بھی شوہر کے بجائے اپنے والدین کے دامن سے وابستہ رہتی ہیں اور اپنے شوہر سے زیادہ والدین کی بات سنتی ہیں، انہیں یاد رکھنا چاہئے کہ والدین کی خدمت اپنی جگہ لیکن اب شادی کے بعد شریعت نے ان پر شوہر کے حقوق زیادہ لاگو کئے ہیں، دینی و دنیاوی ہر اعتبار سے اب شوہر ہی ان کا سب کچھ ہے،لہٰذا اس کا دل جیتیں،اس سے ان کے والدین کی آنکھیں بھی ان کی طرف سے ٹھنڈی رہیں گی اور ان کا گھر بھی شاد و آباد رہے گا۔
عورت کو چاہیے کہ شوہر کے احسانات کے گُن گاتی رہے کہ ایک مقولہ ہے ”کسی کے احسانات کا شکریہ ادا نہیں کر سکتے تو کم از کم اتنا تو کرو کہ اس کے احسانات کے گُن گایا کرو یعنی ان احسانات کا ذکر کیا کرو! مگر آج کل عورتوں کے دلوں سے شوہر کی تعظیم اور اس کے احسانات کا احساس ختم ہو چکا ہے، اب شوہر کو نام لے کر پکارا جاتا ہے، احسانات کا شکریہ تو دور کی بات ہے اب تو طعنے دئیے جاتے ہیں۔مثلاً:کوئی کہتی ہے:”وہ تو میں ہوں جو تمہارے ساتھ گزارا کر رہی ہوں کوئی اور ہوتی تو کب کی چھوڑ کر چلی جاتی!“تو کوئی یوں طعنہ دیتی ہے کہ”تم نے میرے لئے کیا ہی کیا ہے؟“یوں شوہر کی دل آزاری اور ناراضی کا گناہ مول لیتی ہیں،اس ذہنیت اور سوچ کے فروغ پانے میں سوشل میڈیا،مغرب زدہ لبرل نظامِ تعلیم،آزاد خیالی اور فلموں ڈراموں کا نمایاں کردار ہے۔
یاد رکھیے!شوہر کو راضی رکھنے میں ہی دنیا و آخرت کی بھلائی ہے، شوہر کے دکھ درد کی ساتھی بنئے،طعنے دینے کے بجائے ڈھارس بند ھائیے،چھوڑ کر جانے کی دھمکی دینے کے بجائے ساری زندگی ساتھ نبھانے اور مشکل گھڑی میں ساتھ کھڑے رہنے کا یقین دلایئے،پھر دیکھئے کہ گھر کیسے امن کا گہوارہ بنتا ہے!شوہر کی رضا میں جنت کی خوشخبری ہے،فرمانِ مصطفےٰ ہے: جس عورت کا اس حال میں انتقال ہوا کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنت میں داخل ہو گی۔ (3)
شوہر کی اطاعت کتنی ضروری ہے اس کا اندازہ اس حدیثِ پاک سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب آدمی اپنی بیوی کو حاجت کے لئے بلائے تو وہ فورا ًچلی جائے اگرچہ وہ تنور پر ہی کیوں نہ بیٹھی ہو۔ (4) شیخ عبدُ الحق محدِّث دہلوی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یعنی اگر کسی ضروری کام میں مشغول ہو اور مال کے ضائع ہونے کا بھی اندیشہ ہو،تب بھی شوہر بلائے تو چلی جائے (5) کہ شوہر کو ناراض رکھ کر دنیا سنور سکتی ہے نہ آخرت۔
آج کل سوشل میڈیا اور مغربی انداز اپنانے کی بدولت یہ نحوست بھی آئی کہ سر کے تاج کو پیروں کی جوتی بنانے کی خواہش ہونے لگی ہے۔تاج سر پر ہی زینت دیتا ہے شوہر کو حاکم جان کر تاج سمجھ کر سر پر سجائیں گی تو نہ صرف اس کی چمک بڑھ جائے گی بلکہ حسن میں بھی اضافہ ہو گا اور یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب شوہر کا حق ادا کریں گی اور اس کی اطاعت و تعظیم بجا لائیں گی،ایسا کرنے والیوں کے بارے میں پیارے نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے:جو عورت شوہر کا حق ادا کرے وہ ایمان کی لذت پا لیتی ہے۔(6)چنانچہ کیسی ہی مصروف ہوں،یا کتنی ہی گہری نیند میں ہوں،شوہر بلائے تو فوراً لبیک کہیے اور خدمت گزاری کیجیے،اس نیت کے ساتھ کہ ان شاء اللہ اس کے بدلے اللہ پاک کی بارگاہ سے اجرِ عظیم کی حق دار ٹھہروں گی۔
شوہر کو تکلیف دینے اور اسے ناراض کرنے سے بھی بچیے کہ یہ بہت برا عمل ہے،کیونکہ ایک روایت کے مطابق جب کوئی عورت دنیا میں اپنے شوہر کو تکلیف دیتی ہے تو جنتی حوروں میں سے اس شخص کی بیوی کہتی ہے: اسے تکلیف مت دے، وہ تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب اسے تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آنا ہے۔ (7) اور ایک روایت میں ہے:شوہر سے ناراض ہو کر رات گزارنے والی پر فرشتے صبح تک لعنت کرتے رہتے ہیں۔ (8) ہاں!اگر شوہر بے حس ہے،شرابی کبابی یا جواری ہے،گھر میں لڑائی جھگڑا کرتا ہے تب بھی بیوی کو اس بات کی اجازت نہیں کہ وہ اس کا خیال نہ رکھے۔ بلکہ بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے حقوق ادا کرتی رہے اور شوہر کا رویہ اچھا ہونے کے لئے دعا بھی کرتی رہے۔ اگر بیوی اس کے ساتھ اچھاسلوک کرے گى تو ہی گھر چلے گا ورنہ تو کچھ اور چل جائے گا جو کہ گھر کو برباد کرنے والا ہوتا ہے۔(9)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ
[1] مستدرک،5/244،حدیث:7418ملخصاً2مسند امام احمد،20/65،حدیث: 12614 3ترمذی،2/386،حدیث:1164 4ترمذی،2/386،حدیث:1163 5اشعۃ اللمعات،3/1546مستدرک،5/240،حدیث:7405ملخصاً7ترمذی، 2/392،حدیث:1177ملتقطاً8بخاری،2/388،حدیث:3237ملخصاً9ملفوظاتِ امیرِ اہلِ سنت، 1/498
Comments