سلسلہ:فیضانِ سیرتِ نبوی
موضوع:حضور کی اپنی رضاعی ماؤں سے محبت
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 32ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِنتِ مختار احمد(اول پوزیشن)
(درجہ:دورۃ الحدیث، جامعۃ المدینہ گرلز پاکپورہ جیل روڈ سیالکوٹ)
اسلام ہمیں اپنے ماننے والوں کو اور جن کے ساتھ ہمارا تعلق وابستہ ہے ان کے ساتھ اچھا اور محبت بھرا انداز رکھنے اور ان کے حقوق ادا کرنے کی تلقین کرتا ہے اور خصوصاً اپنی رشتہ داری کے تعلق کو قائم رکھنے کا درس دیتا ہے۔اسی رشتے میں ایک رشتہ رضاعی ماں کا بھی ہے یعنی جس عورت نے مُدّتِ رضاعت میں کسی بچے کو دودھ پلایا ہو تو وہ عورت اس بچے کی رضاعی ماں کہلاتی ہے۔اسلام میں دیگر رشتہ داروں کی طرح رضاعی ماں کو بھی اہمیت حاصل ہے اور اس کے حقوق بھی بیان کئے جاتے ہیں۔اگر بات کی جائے ان مقدس خواتین کی جنہوں نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دودھ پلانے کا شرف پایا تو ان میں سب سے پہلی خاتون پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حقیقی والدہ حضرت بی بی آمنہ رضی اللہ عنہا ہیں۔ان کے بعد یہ سعادت ابو لہب کی آزاد کردہ لونڈی حضرت ثُویْبَہ رضی اللہ عنہا کو ملی اور ان کے بعد حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہ عنہا نے یہ خدمت سر انجام دی۔([1])جن مبارک ہستیوں نے حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دودھ پلایا ان میں ایک نام حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا کا بھی ملتا ہے۔([2])
رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جتنی بھی خواتین نے دودھ پلایا ان کے ایمان کے متعلق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ سب ایمان لائیں۔([3])
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اندازِ کریمانہ جہاں اپنی مقدس بیویوں، اولادِ پاک، غلاموں، باندیوں اور صحابہ و صحابیات کے ساتھ قابلِ رشک و بے مثال تھا وہیں آپ کا مبارک انداز اپنی رضاعی ماؤں کے ساتھ بھی لا جواب تھا۔جیسا کہ منقول ہے کہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حقیقی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کا انتقال اس وقت ہوا جب آپ کی عمر شریف چھ سال تھی۔([4])چونکہ حضور نے اپنی والدہ حضرت آمنہ رضی اللہُ عنہا کی زندگی کا زیادہ عرصہ نہ پایا تھا اس لئے جب ایک موقع پر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی والدہ کی قبر پر تشریف لے گئے تو رونے لگے۔صحابہ کرام نے رونے کا سبب پوچھا تو فرمایا:مجھے اپنی والدہ کی شفقت و مہربانی یاد آ گئی تھی۔([5])
آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی رضاعی والدہ حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہُ عنہا کے بارے میں منقول ہے کہ جب آپ حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو حضور ان کا بہت ادب و احترام فرماتے اور بعدِ ہجرت مدینہ منورہ سے ان کے لئے تحائف بھیجا کرتے تھے۔([6])اسی طرح حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہُ عنہا کے بارے میں ہے کہ جب یہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور ان سے محبت بھرا برتاؤ کرتے، مثلاً ایک مرتبہ ان کے آنے پر حضور نے ان کے لئے اپنی مبارک چادر بچھا دی۔([7])ایک مرتبہ آپ نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر قحط سالی کی شکایت کی تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے فرمانے پر سیدہ خدیجہ رضی اللہُ عنہا نے انہیں 40 بکریاں اور ایک اونٹ پیش کیا۔([8]) جبکہ حضرت اُمِّ ایمن رضی اللہ عنہا سے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ نے ان کے بارے میں فرمایا:اُمُّ اَیْمَن اُمِّی بَعْدَ اُمِّی یعنی اُمِّ ایمن رضی اللہُ عنہا میری ماں کے بعد میری ماں ہیں۔([9]) ایک موقع پر آپ کو جنتی ہونے کی خوشخبری یوں عطا فرمائی کہ جو کسی جنتی خاتون سے نکاح کرنا چاہتا ہے وہ اُمِّ ایمن سے نکاح کر لے۔([10])
حضور کا اپنی ماؤں کے ساتھ یہ محبت بھرا انداز ہمارے لئے درس کے بے شمار پہلو رکھتا ہے۔آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مبارک زندگی کے اس پہلو سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ہمیں بھی اپنے بڑوں خصوصاً والدین کا ادب واحترام کرنا چاہیے اور ان کے آنے پر تعظیماً کھڑے ہو جانا چاہئے،حضور کے طریقے پر عمل کرتے ہوئے کبھی والدین کے لئے ہم بھی اپنی چادر بچھا دیں،ان کے سامنے اونچی آواز سے کلام نہ کریں۔نیز ان کی وفات کے بعد بھی ان کو یاد رکھیں اور ان کو خوب ایصالِ ثواب کر تی رہیں۔اللہ پاک حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ماؤں کے صدقے ہمیں اپنی ماؤں کی محبت اور ان کی قدر نصیب فرمائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
بنتِ ایاز خان
(درجہ اولیٰ، جامعۃ المدینہ گرلز فیضانِ ام عطار گلبہار سیالکوٹ)
حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی رضاعی ماؤں سے بہت ہی محبت فرماتے اور ان کا نہایت ادب و احترام فرماتے تھے۔ حضور کو جن چھ خوش نصیب خواتین نے دودھ پلایا ان سب کو دولتِ ایمان اور صحابیات کا شرف حاصل ہوا۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے پہلے حضرت ثُوَیْبَہ رضی اللہُ عنہا (جو کہ ابو لہب کی لونڈی تھیں)نے دودھ پلایا، حضور ان سے بہت محبت فرماتے تھے۔چنانچہ حضرت بی بی خدیجہ رضی اللہُ عنہا سے حضور کی شادی فرمانے کے بعد جب یہ حضور کے پاس آ یا کرتیں تو آپ ان کا احترام فرماتے اور پھر بعدِ ہجرت مدینہ منورہ سے ان کے لئے تحائف وغیرہ بھیجا کرتے۔([11])
حضرت حلیمہ سعدیہ رضی اللہُ عنہا نے سب سے زیادہ عرصہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دودھ پلایا۔حضور نے اپنے بچپن کے 4سال سیدہ حلیمہ رضی اللہُ عنہا کے گھر پر گزارے، بعد میں جب سیدہ حلیمہ حضور کی خدمت میں حاضر ہوتیں تو آپ ان کا ادب و احترام فرماتے اور محبت سے پیش آتے۔مثلاً غزوۂ حنین کے موقع پر جب سیدہ حلیمہ حضور سے ملنے آئیں تو آپ نے ان کے لئے اپنی چادر بچھائی۔([12])اسی طرح ایک مرتبہ حضور کے پاس آئیں اور قحط سالی کا بتایا تو حضور کے کہنے پر اُمُّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا نے ان کو 40 بکریاں اور ایک اونٹ پیش کیا۔([13])
حضرت بی بی اُمِّ ایمن حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے والدِ ماجد کی باندی اور آپ کی رضاعی والدہ تھیں۔حضور ارشاد فرماتے: اُمِّ ایمن رضی اللہُ عنہا میری ماں کے بعد میری ماں ہیں۔([14]) آپ نے شروع ہی میں اسلام قبول کر لیا تھا نیز آپ نے پہلے حبشہ پھر مدینہ کی طرف ہجرت کی۔([15])
ان کے علاوہ تین کنواری لڑکیوں نے بھی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو دودھ پلایا، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:تینوں پاکیزہ بیبیوں کا نام عاتکہ تھا۔عاتکہ کے معنیٰ زن شریفہ، رئیسہ، کریمہ،سراپا عطر آلود،تینوں قبیلہ بنی سلیم سے تھیں۔([16]) جیسا کہ آپ نے پڑھا کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنی رضاعی ماؤں سے اتنی زیادہ محبت فرماتے اور ان کا ادب و احترام فرمایا کرتے تھے،لہٰذا ہمیں بھی چاہیے کہ اپنے والدین سے محبت اور ان کا ادب و احترام کر کے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنت پر عمل کریں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے والدین کی فرمان بردار اور حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سیرت پر عمل کرنے والی بنائے۔
اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم
[1]سیرتِ رسولِ عربی،ص60،59
[2] فتاویٰ رضویہ،30/296ماخوذاً
[3] فتاویٰ رضویہ،30/295
[4] سیرتِ رسولِ عربی،ص62ملخصاً
[5] سیرۃ حلبیہ،1/154
[6] الکامل فی التاریخ،1/356
[7] ابوداود،4/434،حدیث:5144ملخصاً
[8] کتاب الحدائق،1/169
[9] مواہب لدنیہ،1/428
[10] اصابہ،8/359
[11] الکامل فی التاریخ،1/356
[12] ابوداود،4/434،حدیث:5144ملخصاً
[13] کتاب الحدائق، 1/169
[14] مواہب لدنیہ،1/428
[15] اسدالغابہ،7/325
[16] فتاویٰ رضویہ، 30/295
Comments