بری عادات(قسط6)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ:حصولِ علمِ دین کی رکاوٹیں

موضوع:بری عادتیں (قسط 6)

*بنتِ افضل عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے،زیرِ نظر مضمون میں بیان کردہ بُری عادت بھی حُصولِ عِلمِ دین میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہے۔

بری صحبت اور نا جائز دوستیاں

انسان کی زندگی میں دوستی اور صحبت کی کتنی اہمیت ہے اس سے متعلق داتا گنج بخش علی ہجویری  رحمۃ اللہِ علیہ  لکھتے ہیں: ایک شخص کعبہ شریف کا طواف کرتے ہوئے دعا کر رہا تھا: یااللہ! میرے بھائیوں کو نیک بنا دے۔اس پر لوگوں نے اس سے پوچھا کہ تم اس مقام پہ اپنے لئے دعا کیوں نہیں کر رہے؟جبکہ بھائیوں کے لئے دعا کر رہے ہو!کہا:اے بھائی:میں ان کی طرف جاؤں گا، اگر وہ نیک ہوئے تو ان کی نیکو کاری کی وجہ سے میں بھی نیک بن جاؤں گا اور اگر وہ فساد کرنے والے ہوئے تو ان کے فساد کی وجہ سے میں بھی فساد کرنے والا بن جاؤں گا۔([1]) اس کی اصل وجہ یہ ہے کہ نفس کو دوستوں اور ہم نشینوں سے انس حاصل ہوتا ہے اور انسان جس جماعت میں رہے گا اسی کی عادت اختیار کرے گا، اس لئے کہ عمل و ارادہ صحبت سے پیدا ہوتا ہے، جب علم و عمل والوں کی صحبت ملے گی تو ان کی شخصیت میں موجود خواص اس کی ذات میں بھی پرورش پائیں گے،اس لئے کہ صحبت کا طبیعت پہ ایک خاص تاثر ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ صحبتِ عالم سے ایک جاہل شخص عالم ہو جاتا ہے۔ طوطے کو ہی دیکھ لیجئے کہ انسانوں کی صحبت و تعلیم سے انہی کی زبان بولنے لگتا ہے۔اسی وجہ سے مشائخِ کرام مریدوں کو پہلے صحبت فراہم کرتے ہیں پھر تعلیم و تربیت کرتے ہیں۔بلکہ صوفیائے کرام کے نزدیک تو صحبت کے آداب سیکھنا فرائض میں شامل ہے۔جیسا کہ حضرت مالک بن دینار  رحمۃ اللہِ علیہ  نے اپنے داماد حضرت مغیرہ بن شعبہ  رحمۃ اللہِ علیہ  سے فرمایا:اے مغیرہ! جس بھائی اور دوست کی صحبت تمہیں دینی فائدہ نہ پہنچائے اس کی صحبت سے بچو تاکہ تم سلامت رہو۔(2) کیونکہ انسان کی دوستی اس کے فطری مزاج کی عکاسی کرتی ہے جیسے شہد کی مکھی پھلوں اور پھولوں پہ ہی بیٹھتی ہے یہ گندگی پہ نہیں بیٹھتی جبکہ عام مکھیاں بیٹھتی ہی گندگی پہ ہیں جس سے ان کی گندی طبیعت کا پتہ چلتا ہے اور یہی ہماری دوستی کا حال ہے کہ ہم جیسی دوستی کا انتخاب کر رہی ہیں ہمارا مزاج بھی ایسا ہی ہو گا۔اگر ہم بروں کی صحبت میں اٹھتی بیٹھتی ہیں تو یہ ہماری بری طبیعت کی عکاسی کرتا ہے۔اگر اہلِ علم و نیک خواتین کی صحبت اختیار کرنا پسند کرتی ہیں تو یہ ہمارے اچھے مزاج کی ترجمانی کرتا ہے۔ چنانچہ،

بد عمل و بد کردار لوگوں سے دوستانہ تعلقات قائم کرنا ہدایت سے بھٹکا سکتا ہے۔جیسا کہ امامِ اہلِ سنت  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:غیر مذہب والیوں(اور والوں) کی صحبت آگ ہے، ذی علم، عاقل، بالغ مَردوں کے مذہب (بھی)اس میں بگڑ گئے ہیں۔عمران بن حطان رقاشی کا قصہ مشہور ہے، یہ تابعین کے زمانہ میں ایک بڑا محدِّث تھا، خارجی مذہب کی عورت(سے شادی کر کے اس)کی صحبت میں(رہ کر)معاذ اللہ خود خارجی ہو گیا اور یہ دعویٰ کیا تھا کہ(اس سے شادی کر کے)اسے سُنّی کرنا چاہتا ہے۔ جب صحبت کی یہ حالت(کہ اتنا بڑا محدِّث گمراہ ہو گیا)تو(بد مذہب کو)استاد بنانا کس درجہ بد تر ہے کہ استاد کا اثر بہت عظیم اور نہایت جلد ہوتا ہے، تو غیر مذہب عورت(یا مرد)کی سپردگی یا شاگردی میں اپنے بچوں کو وہی دے گا جو آپ(خود ہی)دین سے واسطہ نہیں رکھتا اور اپنے بچوں کے بد دین ہو جانے کی پرواہ نہیں رکھتا۔(3)

برے لوگوں سے کنارہ کشی کی ترغیب دیتے ہوئے امام اعظم ابو حنیفہ  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:اگر کوئی بازاری یا عام شخص تجھ سے جھگڑا کرے تو اس سے نہ جھگڑنا بلکہ عفو و درگزر سے کام لینا کیونکہ تو اس سے جھگڑے گا تو ان لوگوں کی نظروں میں تیری عزت کم ہو جائے گی۔مزید فرماتے ہیں: نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے پاس نہ بیٹھنا، ہاں! دین اور سیدھے راستے کی دعوت دینے کے لئے ان کے پاس بیٹھنے میں حرج نہیں۔(4) لہٰذا دینی طلبہ و طالبات کے لئے بہت ضروری ہے کہ صرف متقی اور پرہیز گار لوگوں سے ہی دوستی کریں، اس لئے کہ اللہ پاک کے لئے محبت جنت کا راستہ اور دنیا کے لئے فاسق و فاجر لوگوں کی محبت اور ہم نشینی جہنم میں جانے کا سبب ہے۔شریر لوگوں سے میل جول رکھنے سے بچئے، فاسقوں کی صحبت چھوڑ دیجئے، بری عادت و برے اخلاق والے لوگوں سے دور رہیے کہ برے لوگوں سے دوستانہ تعلقات روزِ قیامت ذلت و رسوائی کا سبب بن سکتے ہیں۔جیسا کہ اللہ پاک کا فرمان ہے:

اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَؕ۠(۶۷) (پ25، الزخرف:67)

ترجمہ:اس دن گہرے دوست ایک دوسرے کے دشمن ہو جائیں گے سوائے پرہیز گاروں کے۔

تَزْکِیَۂ قَلْب یعنی دل کی پاکیزگی کے لئے پاکیزہ صحبت اور اچھا ماحول مفید ہیں تو حُصولِ علم کے لئے سنجیدہ و علمی ذوق رکھنے والے اسٹوڈنٹس کی دوستی ہونی چاہیے، ورنہ پڑھائی سے جی چرانے والے، ٹیچرز کی بے ادبی کرنے والے بلکہ ٹیچرز اور انتظامیہ کے بنائے ہوئے رولز کی خلاف ورزی کرنے والے، ادارے کے اصولوں کو اہمیت نہ دینے والے اور دیگر بری عادتوں میں مبتلا اسٹوڈنٹس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا بہت زیادہ نقصان دہ ہیں۔کیونکہ برے دوست کہتے نہیں کہ ہم ایسا کرتے ہیں،تم بھی ایسا کرو،بلکہ غیر محسوس انداز میں ان کی عادتیں ہم میں منتقل ہونا شروع ہو جاتی ہیں اور غیر شعوری طور پر یہ عادتیں ہمارے کردار و گفتار کا حصہ بنتی چلی جاتی ہیں۔جس کے نتیجے میں ذہین اور پڑھنے کا جذبہ رکھنے والے اسٹوڈنٹس بھی پڑھائی سے بیزار ہونے لگتے ہیں اور پڑھائی پر توجہ دینے کے بجائے اپنی صلاحیتیں فضول و ناجائز دوستی کی نحوست کے سبب برباد کر دیتے ہیں۔لہٰذا اپنے علمی معیار کو مضبوط بنانے کے لئے اپنے دوستانہ تعلقات کا خاص خیال رکھئے کہیں یہ دوستی آپ کو آپ کے مقصد سے دور نہ لے جائے۔

یاد رکھئے! ایک روایت میں ہے:آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے، لہٰذا تم میں سے ہر ایک کو چا ہئے کہ وہ دیکھے کہ کس سے دوستی کر رہا ہے۔(5) یہاں دین سے مراد یا تو ملت و مذہب ہے یا سیرت و اخلاق، دوسرے معنی زیادہ ظاہر ہیں یعنی عمومًا انسان اپنے دوست کی سیرت و اخلاق اختیار کر لیتا ہے کبھی اس کا مذہب بھی اختیار کر لیتا ہے، لہٰذا اچھوں سے دوستی رکھو تاکہ تم بھی اچھے بن جاؤ۔نیز کسی سے دوستانہ کرنے سے پہلے اسے جانچ لو کہ اللہ ورسول کا فرمان بردار ہے یا نہیں! صوفیا فرماتے ہیں کہ انسانی طبیعت میں اَخذ یعنی لے لینے کی خاصیت ہے،حریص کی صحبت سے حرص،زاہد  کی صحبت سے زُہد و تقویٰ ملے گا۔(6)لہٰذا دوست کی صحبت کا اثر انسان کے علم و عمل اور اخلاق و کردار کو متاثر کرتا ہے۔بعض نادان طلبہ و طالبات ایسی دوستیاں کر لیتے ہیں کہ اپنے اعلیٰ مقاصد سے ہٹ جاتے ہیں، ایسی دوستیاں دینی طلبہ و طالبات کے لئے ہلاکت خیز ہیں۔اللہ پاک ہمیں دوستی کے معاملے میں افراط و تفریط پر مشتمل تعلقات سے محفوظ فرمائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز یزمان بہاولپور



[1] کشف المحجوب،ص3752کشف المحجوب،ص3743فتاویٰ رضویہ، 23/ 692ملتقطاً4امام اعظم کی وصیتیں،ص20،115 ترمذی،4/167، حدیث: 2385 6 مراٰ ۃ المناجیح، 6/ 599 ملتقطاً


Share