بُری عاتیں (قسط8)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: حصولِ علمِ دین کی رکاوٹیں

موضوع: بری عادتیں (قسط 8)

*بنتِ افضل عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

دینی تعلیم کو ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات ذکر کئے جانے کا سلسلہ جاری ہے، ذیل میں بیان کردہ بُری عادت بھی ایسی ہی ہے جو عِلمِ دین کی برکتوں کے حصول میں رکاوٹ کا باعث ہے۔

اپنی لا علمی کا اعتراف نہ کرنا

اسلام نے علمِ دین کی اہمیت کے پیشِ نظر اپنے ماننے والوں پر علمِ دین حاصل کرنا فرض قرار دیا اور علم والوں کو جاہلوں پر فضیلت دی ہے۔ جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے:

هَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَؕ- (پ23،الزمر:9)

ترجمہ: تم فرماؤ:کیا علم والے اور بے علم برابر ہیں؟

اور حضور نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے علمِ دین سیکھنے سکھانے کو نفلی عبادت سے افضل قرار دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: رات میں تھوڑی دیر پڑھنا پڑھانا ساری رات نفل عبادت سے بہتر ہے۔([1])اور ایک روایت کے مطابق علم حاصل کرنے کو گویا جنت کے راستے پر چلنا قرار دیا۔ چنانچہ ارشاد فرمایا: جو علم حاصل کرنے کے لئے کسی راستے پہ چلے اللہ کریم اسے  جنت کے راستے کی طرف چلائے گا۔([2])

علمِ دین سیکھنا سکھانا اگرچہ افضل عمل ہے مگر اس راہ پر چلنے والوں کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ پوری محنت اور کوشش سے علم سیکھیں لیکن  اپنے اندر یہ احساس پیدا نہ ہونے دیں کہ ہم نے سب کچھ سیکھ لیا ہے اور ہمیں سب کچھ آتا ہے۔کیونکہ ہمارا  علم جتنا بھی ہو بہت تھوڑا ہی ہے اور ہرگز مکمل نہیں ہو سکتا۔جیسا کہ فرمانِ الٰہی  ہے:

وَ مَاۤ اُوْتِیْتُمْ مِّنَ الْعِلْمِ اِلَّا قَلِیْلًا(۸۵) (پ15،بنی اسرآءیل:85)

ترجمہ:اور (اے لوگو!) تمہیں  بہت تھوڑا علم دیا گیا ہے۔

اس آیت کی تفسیر میں علامہ اسماعیل حقی  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: بندوں  کا علم مُتَناہی(یعنی اس کی ایک انتہا)جبکہ اللہ پاک کے علم کی کوئی انتہا نہیں۔ مُتَناہی علم غیر مُتَناہی علم کے مقابلے میں ایسا ہے جیسے اس عظیم سمندر کے مقابلے میں ایک قطرہ ہو جس کی کوئی انتہا نہیں۔ ایک بزرگ فرماتے ہیں: اولیائے کرام کا  علم انبیائے کرام کے علم کے مقابلے میں  سات سمندروں کے مقابلے میں ایک قطرے کی مانند ہے اور انبیائے کرام کا علم حضور نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے مقابلے میں  سات سمندروں  کے مقابلے میں  ایک قطرے کی طرح ہے، جبکہ حضور کا علم اللہ پاک کے علم کے مقابلے میں گویا کہ سات سمندروں  کے مقابلے میں  ایک قطرہ ہے، لہٰذا  وہ علم جو بندوں  کو دیا گیا ہے فی نَفْسِہٖ اگرچہ کثیر ہے لیکن اللہ پاک کے علم کے مقابلے میں  بہت تھوڑا ہے۔([3])  چنانچہ،

مذکورہ فرمانِ الٰہی سے یہ سمجھنا  درست نہیں کہ میرا علم کامل ہے اورمیں سب کچھ جانتا یا جانتی ہوں۔اسی لئے بغیر علم کوئی بات بتانا جرم ہے اور جب اس بات کا تعلق قرآن و حدیث سے ہو تو اس کی برائی  اور زیادہ بڑھ جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نبی پاک  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ایسے لوگوں کے لئے شدید وعید کرتے ہوئے فرمایا:جس نے قرآن میں بغیر علم کچھ کہا تو اسے اپنا ٹھکانا دوزخ بنا لینا چاہیے۔([4]) یعنی اگر عالم قرآن کی رائے سے تفسیر کرے، یا جاہل رائے سے تاویل کرے اور اتفاقًا وہ تفسیر و تاویل درست ہو تب بھی وہ دونوں گنہگار ہوں گے، کیونکہ انہوں نے نا جائز کام کیا اور ممکن ہے کہ آئندہ اس پر دلیر ہو کر غلطی بھی کر جائیں۔([5])دینی عہدے جاہل سنبھال لیں گے تو اپنی جہالت کا اظہار نا پسند کریں گے،مسئلہ پوچھنے پر یہ نہ کہیں گے کہ ہمیں خبر نہیں بلکہ بغیر علم گھڑ کر غلط مسئلے بتائیں گے اس کا انجام ظاہر ہے۔ بے علم طبیب مریض کی جان لیتا ہے اور جاہل مفتی اور خطیب ایمان برباد کرتے ہیں۔([6])اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: جھوٹا مسئلہ بیان کرنا سخت شدید کبیرہ ہے۔ اگر قصداً(جان بوجھ کر)ہے تو شریعت پہ افترا(بہتان)ہے اور شریعت پہ افترا اللہ پہ افترا ہے اور اللہ فرماتا ہے:

اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ(۶۹) (پ11،  یونس:69)

(ترجمہ:)وہ لوگ جو اللہ پر جھوٹ افترا کرتے ہیں فلاح نہ پائیں گے۔

اور اگر بے علمی سے ہے تو جاہل پر سخت حرام ہے کہ فتویٰ دے۔([7])

عموماً کچھ اسٹوڈنٹس کی یہ عادت ہوتی ہے کہ جب ان سے کوئی شرعی مسئلہ پوچھا جائے تو معلوم نہ ہونے کی صورت میں لاعلمی کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنی اٹکل سے ہی بتا دیتے ہیں۔ ایسے اسٹوڈنٹس کی سوچ ہوتی ہے کہ ہر سوال کا جواب دینا ان پر لازم ہے، لہٰذا لاعلمی کے باوجود صرف اپنی عزت بچانے کے لئے غلط مسئلہ بتا دیتے ہیں اور اللہ کریم سے ڈرتے نہیں، اگرتوجہ دلائی جائے کہ غلط مسئلہ بیان کیا ہے تو اس پر اڑ جاتے اور رجوع کرنے کو اپنی انا کا مسئلہ بنا لیتے ہیں اور حق قبول نہیں کرتے بلکہ خود کو ہی درست قرار دیتے ہیں۔ یقیناً یہ ایک بری عادت ہے جو  طلبہ و طالبات کے لئے ناکامی کا سبب بنتی اور مزید سیکھنے اور آگے بڑھنے کے سفر کو روک دیتی ہے۔ انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہئے کہ اپنی لا علمی کا اعتراف کرنا غلط نہیں، بلکہ یہ بھی کارِ ثواب ہے۔ جیسا کہ قوت القلوب میں ہے: بندہ جب کہتا ہے کہ میں نہیں جانتا تو یقیناً اس نے اپنے علم پر عمل کیا اور اپنے حال پر قائم رہا۔پس اس کے لئے اس شخص کے برابر ثواب ہے جو علم جانتا ہے اور اپنے حال پر قائم رہتے ہوئے اور علم پر عمل کرتے ہوئے اسے ظاہر کرے۔ لہٰذا یہی وجہ ہے کہ بندے کا قول میں نہیں جانتا نصف علم ہے۔([8])

صحابہ کرام علمی بات بیان کرنے میں خوفِ خدا و احتیاط سے کام لیتے اور جب بھی ان سے کسی ایسی چیز سے متعلق سوال کیا گیا جس کے متعلق انہیں صحیح معلومات نہ ہوتیں تو وہ تکلف اور بناوٹ سے کام نہ لیتے، بلکہ اپنے عرفی مقام و مرتبہ کی پروا کیے بغیر پوری وضاحت و بلند حوصلے کے ساتھ اپنی لاعلمی کا اعتراف کر لیتے یا کسی دوسرے علم والے کے پاس بھیج دیتے، جیسا کہ مسلمانوں کے پہلے خلیفہ حضرت ابو بکر صدیق  رضی اللہُ عنہ سے

وَّ فَاكِهَةً وَّ اَبًّاۙ(۳۱) (پ30،عبس:31)

(ترجمہ:اور پھل اور گھاس)

کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے اپنی لاعلمی کا اعتراف کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:کون سا آسمان مجھ پر سایہ فگن ہوگا اور کون سی زمین میرا بوجھ اٹھائے گی جب میں کتابُ اللہ کے بارے میں ایسی بات کہوں گا جس کا مجھے علم نہیں۔([9]) جبکہ مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہ  کے متعلق مروی ہے کہ ایک شخص نے آپ سے خرگوش کھانے کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا: مجھے حدیث میں کمی زیادتی ناپسند ہے،اس لئے میں تمہیں ایک ایسے شخص کے پاس بھیجتا ہوں جو اس سے متعلق تمہاری رہنمائی کرے گا۔ پھر آپ نے اس شخص کو حضرت عمار بن یاسر  رضی اللہُ عنہ  کے پاس بھیجا جنہوں نے اسے یہ بتایا کہ  ہم حضور نبی کریم  صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم  کے ساتھ فلاں جگہ تھے، حضور کو ایک دیہاتی نے خرگوش تحفۃً پیش کیا تو ہم نے بھی اس کا گوشت کھایا۔([10])

اس سے معلوم ہوا کہ خرگوش کا گوشت کھانا حضور اور صحابہ کرام سے ثابت ہے اور یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ اگر ہم سے کوئی علمی بات پوچھی جائے اور ہمیں صحیح طرح سے علم نہیں یا علم تو ہے مگر شک ہے یا اس کیفیت میں نہیں کہ اس کا صحیح جواب دے سکیں تو سوال کرنے والوں کو کسی صاحبِ علم کی طرف بھیج دیں تاکہ وہ ان کی صحیح رہنمائی کر سکے۔ خصوصاً قرآن و حدیث اور احکامِ شرعیہ کے معاملے میں احتیاط بہت ضروری ہے کہ اپنی اٹکل اور بغیر علم کے مسئلہ بیان کرنے والے کی مذمت بیان کرتے ہوئے مسلمانوں کے چوتھے خلیفہ مولیٰ علی  رضی اللہُ عنہ  فرماتے ہیں: جو لوگوں کو بغیر علم کے فتویٰ دے، آسمان و زمین کے فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔([11]) لہٰذا عافیت اسی میں ہے کہ شرعی معاملات میں بہت احتیاط سے کام لیا جائے اور بغیر علم کے مسئلہ نہ بتایا جائے بلکہ جن ضروری شرعی مسائل کا سو فیصد کنفرم علم نہ ہو ان کا علم سیکھنے اور جاننے کی کوشش کی جائے تاکہ ان وعیدات سے بچ سکیں اور لاعلمی کا اظہار کرنے کی ہمت و حوصلہ پیدا ہو سکے۔

اہلِ علم کی موجودگی میں بھی درست معلوم ہونے کے باوجود جواب نہ دینے اور اہل علم کی طرف رجوع کرنے کا کہنے  ہی میں عافیت ہے اور یہی ہمارے بزرگوں کا بھی طریقہ رہا ہے،جیسا کہ امیرِ اہلِ سنت فرماتے ہیں:دعوتِ اسلامی سے پہلے کی بات ہے، میں علمائے کرام کی بارگاہ میں حاضر ہوتا اور ان سے سوالات کیا کرتا تھا، ایک مرتبہ اسی سلسلے میں حاضری ہوئی تو غزالیِ دوران علامہ سید احمد سعید کاظمی شاہ صاحب اور مفتیِ اعظم پاکستان حضرت مفتی وقارُ الدین صاحب  رحمۃ اللہِ علیہ ما دونوں بزرگ جلوہ فرما تھے۔ جب میں نے سوالات کیے تو جن سے بھی سوال عرض کرتا وہ دوسرے کی طرف بڑھا دیتے کہ آپ جواب دیجئے!اور دوسرے بھی یہی کہتے کہ حضرت آپ جواب دیجئے۔ ان بزرگوں کا یہ ادب والا  انداز دیکھ کر مجھے یہ سیکھنے کو ملا کہ جواب دینے میں جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ بہرحال! بڑے بڑے علمائے کرام جن پر علم ناز کرتا تھا ان کا انداز یہ تھا، حالانکہ اگر عالمِ دین اپنی طرف سے کوتاہی نہ کرے اور اپنی معلومات کے مطابق درست جواب دے، لیکن اس سے غلطی ہو جائے تو وہ گناہگار نہیں ہوتا۔جبکہ ہمیں آتا جاتا کچھ ہے نہیں، پھر بھی ہر سوال کا جواب دینا ضروری سمجھتی ہیں۔ اللہ کریم بس ہمیں محتاط بنا دے اور گناہوں سے بچائے۔ اگر کوئی سوال کرے تو جواب دینا فرض نہیں ہو جاتا کہ نہیں دیں گے تو اپنی بے عزتی ہو جائے کہ اتنے بڑے مولانا کو یہ بھی نہیں پتا!بھلے یہاں بے عزتی ہو جائے، لیکن اللہ پاک آخرت کی بے عزتی سے بچائے۔ سچی بات یہ ہے کہ اس طرح بے عزتی نہیں ہوتی، اگر ہوتی ہو گی تو کسی نادان کے نزدیک ہوتی ہو گی اور اس کی کوئی اہمیت نہیں۔جو علمِ دین سے دلچسپی رکھنے والے لوگ ہوتے ہیں ان کی نظر میں اس طرح عزت بڑھتی ہےکہ یار! اتنا بڑا نام ہے اور انہوں نے کہہ دیا کہ ہمیں نہیں معلوم۔ مزید یہ کہ اس  سے لوگوں کی تربیت ہوتی ہے اور انہیں یہ سوچ ملتی ہے کہ ہمیں تو اتنی معلومات بھی نہیں، پھر بھی ہم ہر بات کا جواب دے رہے ہوتے ہیں، ہمیں اتنی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔([12])

جو طلبہ و طالبات سوشل میڈیا وغیرہ پر باقاعدہ سوالات کے جوابات دیتے ہیں، ان کو اللہ پاک سے ڈرنا چاہیے اور غور کرنا چاہیے کہ کیا واقعی وہ اس کے اہل ہیں یا نہیں! کہ یہاں تو بڑے بڑے علما بھی سائل کو اپنے سے بڑے عالم کی خدمت میں حاضری کی رہنمائی فرماتے ہیں اور ہم اپنی  نا اہلی اور کم علمی کے باوجود بھی احکامِ شرع بیان کرتے ہوئے اللہ کریم سے ڈرتی نہیں۔لہٰذا ایسے اسٹوڈنٹس کو چاہئے کہ اپنی پڑھائی پر توجہ دیں ورنہ زمانۂ طالبِ علمی کی غفلتوں کے سبب فارغ التحصیل ہونے پر بھی علوم و فنون  بلکہ بنیادی و فرض علوم میں بھی مہارت حاصل نہ ہو گی اور صرف سند کے عالم یا عالمہ بن کر رہ جائیں گے اور اگر ساتھ میں مجھے سب کچھ معلوم ہے کی آفت میں مبتلا ہو گئے تو یہ بری عادت مزید سیکھنے اور کتاب و اہلِ علم کی طرف رجوع سے بھی روک دے گی جس کے نتیجے میں ہلاکت و بربادی کا شکار ہو جائیں گے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* معلمہ جامعۃ المدینہ گرلز یزمان بہاولپور



[1] مشکاۃ المصابیح،1/68،حدیث:265

[2] ترمذی، 4/312، حدیث:2691

[3] تفسیر روح البیان، 5/ 197

[4] ترمذی، 4/439، حدیث:2959

[5]  مراۃ المناجیح، 1/ 208

[6]  مراۃ المناجیح، 1/ 193

[7]  فتاویٰ رضویہ، 23/ 711

[8] قوت القلوب، 1/236

[9]  الاتقان فی علوم القرآن، 1/354

[10] مصنف ابن ابی شیبہ، 12/335، 334، حدیث:24760

[11] مستطرف، 1/39

[12]  آب زم زم سے چائے بنانا کیسا ؟ص  5


Share