سب سے قیمتی چیز

حدیث شریف اور اس کی شرح

سب سے قیمتی چیز

*مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ فروری 2023

اللہ پاک کے آخری نبی ، محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمان ہے: ” اِنَّمَا الْاَعْمَالُ بِالْخَوَاتِیْم “ یعنی اعمال کا دارو مدار خاتمے پر ہے۔[1]

خلاصَۂ شرحِ حدیثخَوَاتِیْم “ سے مراد وہ اعمال ہیں جن پر موت کے وقت بندے کا عمل ختم ہوتا ہے۔[2]  اس حدیثِ پاک میں ہمیشہ نیکیاں کرنے پر ابھارا گیا ہے اور گناہوں سے اپنے اوقات کو بچانے کی تاکید کی گئی ہے کہ کہیں یہ برائی یا گناہ بندے کا آخری عمل نہ بن جائے! اس میں بندے کو خود پسند ی سے بھی ڈرایا گیا ہے کہ بندے کو اپنے کام کا اچھا نتیجہ آنے کا علم نہیں ، حدیث ِ مبارکہ ہمیں یہ بھی سکھارہی ہے کہ ہم ایک دوسرے کے جنّتی یا جہنمی ہونے کی گواہی نہیں دے سکتے ( اِلّا یہ کہ جن کے جنتی یا جہنمی ہونے کو قراٰن و حدیث نے بیان فرمادیا )  نیز یہ بھی سیکھنے کو ملا کہ اللہ پاک کی ذات بےنیاز ہے ، تمام جہاں اُس کی ملکیت ہے وہ جیسے چاہے اس میں تصرُّف فرمائے یہی عدل ہے اور یہی درست ، اس پر کسی بھی قسم کا کوئی اعتراض نہیں بلکہ نجات تو اللہ پاک کی قضا و قدر کو ماننے میں ہے۔[3]

قیمتی چیز چھن جانے کا خوف انسان کی فِطرت ہےکہ جس چیز کو قیمتی سمجھتا ہےاُس کے چِھن جانے کا اُسے خوف رہتا ہے اور اُس قیمتی چیز کی حفاظت کی وہ پوری کوشش کرتاہے ، سونے  ( Gold ) ہی کو لے لیجئے ، کتنی حفاظت سےرکھا جاتا ہے ، جائیداد کی حفاظت کےلئےانسان کیا کچھ نہیں کرتا ، گاڑی جتنی قیمتی ہوتی ہے اُس کی حفاظت کا مضبوط ترین انتظام کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ دولت اور سرمائے کی حفاظت کے لئے بینک سخت سے سخت سیکورٹی کا نظام بناتا ہے ، ہم اپنی دولت کو اپنے گھر میں سب کےسامنے نہیں رکھتے بلکہ الماری کے خفیہ لاکرز اِسی کی حفاظت کے لئے بنواتے ہیں۔ جو دولت انسان کے پاس ہوتی ہے وہ اُس کی حفاظت کرتا ہے لیکن ایک دولت ایسی بھی ہے جس کی فکر سے بندہ غافل ہوجاتا ہے اور اُس کا نام ہے دولتِ ایمان۔ یہی دولت انسان کے لئے سب سے قیمتی ہونی چاہئے کہ جسے دولتِ ایمان چلے جانے کا خوف نہیں ہوتا ڈر ہے کہ کہیں مرتے وقت اس کی یہ دولت چھین نہ لی جائے۔

ایمان کو تحفظ ( Protection )  دینے والے چندکام ایمان کی حفاظت اور سلامتی یقیناً اللہ ربُّ العزّت ہی کے اختیار اور قدرت میں ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ بندے کو ایمان کی حفاظت کے اقدامات کا اختیار دیا گیا ہے ، لہٰذا بندے کو چاہئے کہ وہ اپنے ایمان کی سلامتی کے لئے اللہ پاک کی بارگاہ میں دعا کے ساتھ ساتھ حفاظتِ ایمان میں مُعاوِن اعمال اپنائے۔

 ( 1 ) ہر کام گناہ سےبچ کرکرنے کی عادت ڈالئے دنیا میں جیسے غلطیاں کر نے والا ناکامی کے دَلدَل میں دھنستا چلاجاتا ہے ویسے ہی اس کے برعکس کامیاب وہی ہوتا ہے جو اپنے کاموں کوغلطیوں “ سے بچانے کی عادت بنالیتا ہے۔ اِن میں وہ ” غلطیاں “ بھی شامل ہیں جوشرعاًاللہ کی نافرمانی اور گناہ کہلاتی ہیں۔ گناہوں میں پڑے رہنا ایمان کی بربادی کا سبب بن سکتا ہے جیسا کہ علامہ اسماعیل حقی رحمۃُ اللہ علیہ اس بارے میں فرماتے ہیں کہ کسی مسلمان کا گناہوں پر اِصرار  ( مسلسل گناہ ) کرنا بھی ایسا عمل ہے جس سے اس کی موت کفر کی حالت میں ہو سکتی ہے ۔[4]

لہٰذا ایمان بچانے میں کامیاب ہونے کے لئے ہرکام کو گناہوں سے بچ کر کرنا ضروری ہے۔ اپنےدن بھر کے کاموں پر نظر رکھئے کہ ان میں کوئی گناہ شامل نہ ہوسکے۔

 ( 2 )  اپنے کام سےمتعلق ضروری شرعی راہنمائی حاصل کیجئے کسی کام کےصحیح یا غلط ہونے کی کسوٹی نہ ہمارےتجربات ہیں اور نہ ہی لوگوں کی تائیدات بلکہ ” شرعی قوانین “ ہیں جن پر اپنےکاموں کو پَرکھ کرصحیح اورغلط کافیصلہ کیاجاسکتا ہے۔ جو لوگ شریعت کی کسوٹی پر اپنے اعمال کو نہیں پرکھتےیاان کے بارےمیں شرعی راہنمائی لینے کے عادی نہیں ہوتے بسا اوقات وہ ایمان لیوا کام کربیٹھتے ہیں لہٰذا اپنے ایمان کو بچانے کے لئے علمائے اہلِ سنّت و مفتیانِ کرام سے شرعی راہنمائی لیتے رہنا ضروری ہے۔

 ( 3 ) بِلاضرورت بات نہ کرنے کا ذہن بنائیے گفتگو اور بات چیت انسان کے خیالات اور سوچ کی ترجمان ہوتی ہے۔ زبان بےقابو ہوجائے تو بنے کام بگڑجاتے ہیں اور نوبت یہاں تک پہنچ جاتی ہے کہ ایما ن کے لالے پڑ جاتے ہیں۔ شیطان ہم پر غالب آنے کے لئے بِلاضرورت گفتگو کروانے کی کوشش میں لگارہتا ہے اور شیطان پر غالب آنے کا نسخہ ” خاموشی  “ ہے

ہماری سوسائٹی کی ایک تعداد منہ میں آنے والی ہر بات چاہے وہ خلافِ شرع ہو بَک دینے کی عادی بن چکی ہے مثلاً کُفریہ اَشعار والے گانےسُن کر گنگناتے پھرتے ہیں ، اِسی زبان سے جنّت و دوزخ ، فرشتوں اور اللہ پاک کی شان میں توہین آمیز چُٹکلے سنائے جاتے ہیں ، اسی زبان سے اپنی غریبی اور تنگدستی کا رونا روتے روتے بعض کُفْریات بک جاتے ہیں ، اسی زبان سے کسی کی موت پر شکوہ وشکایات بھرے کفریات بک دئیے جاتے ہیں۔ زبان سے نکلا ہوا ایک لفظ کیا حیثیت رکھ سکتاہے اس کا اندازہ ان دو فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے لگائیے:

 ( 1 ) آدمی اپنی گفتگو میں ایسا لفظ استعمال کرتا ہے جس سے اس کے ہم نشین ہنس پڑتے ہیں جبکہ اس گفتگوکے سبب وہ ثُرَیّا ستارے سے بھی دور  ( جہنم میں )  جاگرتاہے۔[5]

 ( 2 )  ایک شخص اللہ پاک کو نا راض کرنے والاکلمہ کہتا ہے اور اسے یہ خیال بھی نہیں ہوتا کہ یہ اسے اللہ پاک کی ناراضی تک پہنچا دے گا مگر اللہ پاک اس کی وجہ سے اس کے لئے قیامت تک اپنی ناراضی لکھ دیتا ہے۔[6]

 ( 4 ) برے لوگوں سے بچئے بُروں کی صحبت اختیار کرنے میں ہمارے دین و دنیا کا سَراسَر نُقصان ہی نُقصان ہے کیونکہ بُری صحبت بسا اوقات انسان کے ایمان کو بھی برباد کر ڈالتی ہے۔ لوگ جان لیوا ، خوفناک اور زہریلے جانوروں ، کیڑے مکوڑوں اور وحشت ناک چیزوں سے تو ڈرتے ہیں کہ یہ چیزیں ہماری جان کو نقصان پہنچائیں گی لیکن ایسی صحبت سے نہیں بچتے کہ جو ہمارے ایمان کو برباد کردیتی ہے ، حکیمُ الاُمّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ  فرماتے ہیں : حتَّی الْامکان بُری صحبت سے بچو کہ یہ دِین و دنیا برباد کردیتی ہے اوراچھی صحبت اختیار کرو کہ اس سے دِین و دُنیا سنبھل جاتے ہیں۔ سانپ کی صحبت جان لیتی ہے ، بُرے یار کی صحبت ایمان برباد کردیتی ہے۔[7]

اللہ کریم ہمیں ایمان پر استقامت سے نوازے اور مدینۂ منوّرہ کی فضاؤں میں ایمان وعافیت کی موت عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ذمہ دار شعبہ فیضانِ حدیث ، المدینۃ العلمیہ  Islamic Research Center



[1] بخاری، 4/274،حدیث: 6607

[2] عمدۃ القاری، 15/565

[3] مرقاۃ المفاتیح، 1/269،268،تحت الحدیث:83

[4] روح البیان، الانعام،تحت الآیۃ: 70، 3/51

[5] مسند احمد،3/366،حدیث:9231

[6] ترمذی، 4/143، حدیث: 2326

[7] مراٰۃ المناجیح،6/591۔


Share