حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہُ عنہ کا حِلم

حضرتِ سیّدنا امیرِ معاویہ کا حِلم

*مولانا حافظ حفیظ الرحمٰن عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ فروری 2023ء

صحابی ابنِ صحابی حضرت سیّدُنا امیر معاویہ بن ابوسفیان  رضی اللہ عنہما کا سلسلۂ نسب پانچویں پشت میں حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے مل جاتا ہے۔ صلحِ حدیبیہ کے بعد ایمان لانے والی شخصیات میں سےصحابیِ رسول حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ بھی ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہ 6 ہجری میں صلحِ حدیبہ کے بعد ایمان سے مشرف تو ہوگئے تھے لیکن اپنا اسلام فتحِ مکّہ کے دن بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر ظاہر کیا ، اس موقع پر آقا کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان کو ”مرحبا“ کہہ کر عزت وتکریم بخشی۔  [1]آپ رضی اللہ عنہ کو دیگر بے شمار اوصاف و کارنامے اور فضائل و مناقب کے ساتھ ساتھ کتابتِ وحی اور حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے خُطوط تحریر کرنے کی بھی سعادت حاصل رہی۔[2]

اوصافِ مبارکہ حضرت سیّدُنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ اخلاص ، ایفائے عہد ، علم و فضل  ، فقہ و اجتہاد ، حسن ِسلوک ، سخاوت ، تقریر و خطابت ، مہمان نوازی ،  غریب پروری ، خدمتِ خَلق ، اطاعتِ الٰہی ، اتّباعِ سنّت اور  تقویٰ وپرہیز گاری جیسے عمدہ اوصاف کے ساتھ ساتھ  ایک بہت ہی اعلیٰ وصف ”حلم یعنی تحمل و بردباری“   سے بھی متصف تھے اور کیوں نہ ہو کہ  اللہ  کے پیارے نبی محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنے اس عظیم صحابی کو حلم کی دعا سے نوازا  ہے ، چنانچہ اللہ کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اللہ کی بارگاہ میں دعا کی : اے اللہ !  معاویہ کو علم اور حلم  ( بردباری )   سے بھر دے۔[3]

حلم و بردباری کیا ہے؟ غصہ کو برداشت کر لينا اور غصہ دلانے والی باتوں پر غصہ نہ کرنا ”حلم اور بردباری “کہلاتا ہے۔[4]

حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ  کے لئے سرکار  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی جانب سے کی جانے والی حلم وبردباری کی دعا کا ایسا اثر ہوا کہ آپ  رضی اللہ عنہ  کی زندگی کے ہر گوشے میں حلم و بردباری  والا وصف نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ آئیے اس حوالے سے 3روایات ملاحظہ کیجئے :

 ( 1 ) نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : میری امّت میں معاویہ بڑے حلیم ( بردبار )  ہیں۔[5]

 ( 2 ) حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میرے سامنے حضرت معاویہ کی برائی مت کیا کرو ، وہ ایسے بردبار شخص ہیں کہ غصے کے عالم میں بھی ہنستے ہیں ۔[6]

  ( 3 )  اىک دفعہ حضرت سیدنا عبد اللہ  بن عمر  رضی اللہ عنہما نے فرماىا : حضرت سیّدنامعاوىہ بن ابوسفىان  رضی اللہ عنہما لوگوں مىں سب سے زىادہ حوصلہ مَنْد اور سب سے زىادہ حلىم الطبع ہىں۔[7]

حلم اور بردباری حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ کے نمایاں اوصاف میں سے ہےاس وصف کا اظہار خاص طور پر اس وقت ہوتا جب کوئی شخص آپ کے ساتھ بدکلامی یا بدسلوکی کرتا۔ ایسے موقع پر بدلہ لینے  کی طاقت کے باوجود آپ رضی اللہ عنہ  بردباری کا مظاہرہ فرماتے۔ آئیے ! اس حوالے سے 2 واقعات ملاحظہ کیجئے :

 ( 1 )  کہیں بردباری کم نہ ہوجائے ! ایک مرتبہ ایک شخص نے حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے سخت کلامی کی تو کسی نے کہا : اگرآپ رضی اللہ عنہ چاہیں تو اسے عبرت ناک سزا دے سکتے ہیں۔اس پر آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا : مجھے اس بات سے حیا آتی ہے کہ میری رعایا کی  کسی غلطی کی وجہ سے میرا  حِلْم اور بُرْدباری کم ہوجائے ۔[8]

 ( 2 ) کھجور کی ٹوکریاں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس کھجور کی ٹوکریاں لائی گئیں ، آپ نے اہلِ شام کے درمیان ان کو تقسیم کردیا  ، ایک بوڑھے شخص کو ایک ٹوکری دی تو وہ ناراض ہوگیا اور غصے میں قسم کھائی کہ وہ اس ٹوکری کو حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ  کے سر پر مارے گا۔ حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ  کو اس بات کا پتا چل گیا تو آپ نے اس بوڑھے آدمی سے کہا : اپنی قسم پوری کرلو  ، ایک دوسرے کے ساتھ نرمی سے پیش آنا چاہئے۔[9]

حلم حضرت سیّدنا امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ  کا پسندیدہ وصف تھایہی وجہ ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ میں اس وصف کا نہ صرف کئی بار ظہور ہوا  بلکہ آپ رضی اللہ عنہ نے کئی مواقع پر اس وصف کو اختیار کرنے کی ترغیب دلائی ہےاور اس حوالے سے اپنے جذبات کا اظہار بھی  فرمایا ہے ، چنانچہ آپ رضی اللہ عنہ  فرماتے تھے کہ میرے نزدیک غصہ پی جانے سے زياده لذیذ کوئی چیز نہیں۔[10]

سب سے بڑا سردار کون؟حضرت سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی بارگاہ میں سوال ہوا : سب سے بڑا سردار کون ہے؟ آپ نے فرمایا : جب کچھ مانگا جائے تو سب سے بڑھ کرسخی ہو ، محافل میں حسنِ اَخلاق کے اعتبار سے اچھا ہو اور اسے جتناحقیر سمجھا جائے وه اتنا ہی حلم و بردباری کا مظاہرہ کرے۔[11]

بُردباری اختیار کرنے کی نصیحت : حضرت سیّدناامیرِمعاویہ رضی اللہ عنہ نے بنواُمیہ کو مخاطب کرکے  ارشاد فرمایا : اے بنو اُمَیَّہ !  حِلْم کےذریعے قریش کےساتھ برتاؤ کرو ! خداکی قسم !  زمانہ ٔ جاہلیت میں  مجھے کوئی برا بھلا کہتا تو میں اس کے ساتھ حِلْم و بُردْباری  سےپیش آتا یوں وہ شخص میراایسادوست بن جاتاکہ اگر مجھے اس کی مدد کی ضرورت پڑتی تو وہ مدد کرتا۔حِلْم کسی شریف آدمی سے اس کی شرافت نہیں چھینتا ، بلکہ اس کی عزت میں اضافہ ہی کرتا ہے ۔[12]

تبرکاتِ نبوی سے محبت کاتبِ وحی حضرت امیرِ معاویہ رضی اللہ عنہ نے بَوقتِ وصال وصیّت کی کہ مجھے حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اِزار شریف و رِدائے اقدس و قمیصِ اطہر میں کفن دینا ، ناک اور منہ پر موئے مبارک اور ناخنِ بابرکت کے تراشے رکھ دینا ، ممکن ہے اللہ  کریم ان تبرکات کے سبب مجھ پر رحم فرمائے ۔[13]

وصال آپ رضی اللہ عنہ نے 22 رجب المرجب60ھ کو 77سال کی عمر میں وصال فرمایا۔[14]

صحابیِ رسول حضرت ضَحّاک بن قَیس رضی اللہ عنہ نے نمازِ جنازہ پڑھائی جبکہ دِمَشْق کے بابُ الصغیر میں آپ کا مزار بنایا گیا۔[15]

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی



[1] طبقاتِ ابن سعد ، 7/285ماخوذاً

[2] معجم کبیر ، 5/108 ، حدیث : 4748

[3] تاریخ کبیر ، 8/68 ، حدیث : 2624

[4] جنتی زیور ، ص132

[5] کتاب السنۃ للخلال ، 1 /452 ، رقم : 701 ، المطالب العالیہ ، 7/166 ، حدیث : 8847

[6] الاستیعاب ، 3/472

[7] کتاب السنۃ للخلال ، 2 /443 ، رقم : 681

[8] حلم معاویۃ ، ص22 ، رقم : 14

[9] حلم معاویۃ ، ص27 ، رقم : 25

[10] تاریخ ابن عساکر ، 59/179

[11] تاریخ ابن عساكر ، 59 / 186

[12] البدایۃ و النھایۃ ، 5 /639 ملتقطاً

[13] تاریخ  ابن عساکر ، 59 / 227

[14] تاریخ الخلفاء ، ص158 ، سیر اعلام النبلاء ، 4/314

[15] الثقات لابن حبان ، 1/436۔


Share