مولانا عبدالحبیب عطّاری کا انٹرویو (قسط:01)

انٹریو

رکنِ شوریٰ مولانا عبدُ الحبیب عطّاری(قسط : 01)

ماہنامہ اگست2021ء

ہنستا مسکراتا چہرہ ، حوصلہ مند اور باہمت ، دینِ متین کی خدمت کا عظیم جذبہ رکھنے والے ، عاشقانِ رسول کی دینی تحریک دعوتِ اسلامی کی مرکزی مجلسِ شوریٰ کے رکن حاجی عبد الحبیب عطّاری مُدَّظِلُّہُ العالی کی ذات جانی پہچانی اور معروف ہے ، آپ بچپن میں ہی دعوتِ اسلامی سے وابستہ ہوئےاور شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ محمد الیاس عطّار قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کے ہاتھ مبارک پر بیعت کا شرف حاصل کیا ، آپ نے اہلِ سنّت کے بڑے ادارے دارُالعلوم امجدیہ کراچی سے دورۂ حدیث کیا۔ اِس وقت آپ کی ماتحتی میں دعوتِ اسلامی کے 17 شعبے ہیں ، آپ  اکثر وقت دین کے کاموں میں مصروف نظر آتے ہیں ، گویا کہ آپ نے خود  کو دعوتِ اسلامی اور دینِ متین کی خدمت کےلئے وقف کردیا ہے۔ آپ کی ذات بے شمار صلاحیتوں سے مالامال ہے ، آپ ایک بہترین مبلّغ اور اچّھے نعت خواں ہیں ، مدنی چینل کے کئی مقبولِ عام سلسلوں میں آپ کی ذات نمایاں دکھائی دیتی ہے ، فیس بک ، یوٹیوب ، انسٹا گرام وغیرہ پر آپ کےاکاؤنٹ بھی موجود ہیں صرف سوشل میڈیا پر آپ سے مَحبّت رکھنے والوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ چکی ہے۔ پہلے آپ نے اپنی آواز میں شہرۂ آفاق ترجمۂ قراٰن “ کنزُالایمان “ ریکارڈ کروایا ، اس کے بعد مفتی محمد قاسم عطّاری  دام ظِلُّہُ العالی  کا ترجمۂ قراٰن بنام “ کنزُ العرفان “ ریکارڈ کروایا ، اور اب تک تفسیر “ صراطُ الجنان “ کے 17 پارے ریکارڈ کروا چکےہیں۔ 5 مئی 2021ء بروز بدھ دوپہر 2 بجے مولانا مہروز عطّاری مدنی اور مولانا خالد عطّاری مدنی نے آپ سے ایک طویل اور دلچسپ انٹرویو لیا ، اس انٹرویو کے چند منتخب سوالات کو کچھ ترمیم کے بعد “ ماہنامہ فیضانِ مدینہ “ کے صفحات کی زینت بنایا جارہا ہے۔

خالد عطّاری :  سب سے پہلے یہ بتائیے کہ آپ کا نام فیصل ہے یا عبدالحبیب؟

عبد الحبیب عطّاری (مسکراتے ہوئے) : بھئی واہ! آپ نے تو پہلا سوال ہی بڑا ڈائریکٹ اور پرسنل کیا ہے اب جواب سنئے : ہمارے یہاں میمنوں میں دو نام رکھے جاتے ہیں ایک نام کو اذان کا نام کہا جاتا ہے ، اور دوسرا نام پکارنے کے لئے رکھا جاتا ہے ، میرے دادا کا نام حبیب تھا لہٰذا میرا اذان کا نام حبیب رکھا اور پکارنے کے لئے فیصل نام رکھا گیا اور فیصل نام ہی میری تقریباً تمام اسناد میں ہے ، اسکول ، N.I.C اور پاسپورٹ وغیرہ میں بھی یہی نام لکھا ہے ، اب حبیب سے میرا نام عبدالحبیب کیسے ہوا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب شیخِ طریقت ، امیرِ اہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطّار قادری  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ کو معلوم ہوا کہ میرا اذان کا نام حبیب ہے تو میری جانب اشارہ کرکے فرمانے لگے : جب اس بچّے کااتنا اچّھا نام ہے تو انہیں عبدالحبیب کہا کریں ، اب ساری دعوتِ اسلامی مجھے عبدالحبیب کے نام سے پہچانتی ہے مگر ابھی تک میری اسناد میں فیصل نام ہی لکھا ہے ، کچھ پرانی جان پہچان والے اور خاندان کے کچھ پرانے افراد کبھی کبھی فیصل کہتے ہیں ، اور باقی دنیا مجھے عبدالحبیب عطاری کے نام سے جانتی ہے۔

خالد عطّاری : کبھی ایسا بھی ہوا ہے کہ الگ الگ نام کی وجہ سے آپ کو کسی پریشانی کا سامنا ہوا ہو؟

عبدالحبیب عطّاری : جی جی! شروع شروع میں ایسا کئی بار ہوا کہ کال آئی : کون بول رہے ہیں؟ میں نے کہا : عبدالحبیب عطاری بول رہا ہوں ، دوسری جانب سے آواز آتی : فیصل سے بات کرنی ہے۔ اسی طرح کبھی میں نے کہا : فیصل بول رہا ہوں تو آگے سے کہاگیا : عبد الحبیب سے بات کرنی ہے ، کئی بار تواس طرح کا چٹکلا بھی ہوا کہ کسی اسلامی بھائی نے میرے کسی عزیز یا پرانے دوست کو کہا : عبد الحبیب عطاری بیان کے لئے تشریف لارہےہیں۔ پھر جب انہوں نے مجھے دیکھا تو اسی اسلامی بھائی سے کہنے لگے : ارے بھئی! یہ تو فیصل ہیں۔ اس کے علاوہ ایک دو جگہ مجھے ضروری ڈاکومینٹیشن (Documentation) میں پرابلم ہوئی مگر اَلحمدُلِلّٰہ اب کافی وقت گزر گیا ، اللہ رحیم کی رحمت سےایسا کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔

مہروز عطّاری : حاجی صاحب!آپ کی تاریخ پیدائش کیا ہے؟

عبدالحبیب عطّاری : میری انگلش ڈیٹ آف برتھ 14اکتوبر1974ء ہے۔ ہجری اعتبار سے میری تاریخ پیدائش 27 رمضان المبارک ہے اور والدہ ماجدہ مجھ سے کہا کرتی تھیں کہ جب تم پیدا ہوئے تورمضان المبارک کی 27 ویں شب تھی اور اذانِ فجر کا سہانا وقت قریب تھا۔

مہروز عطّاری : دعوتِ اسلامی کے پیارے اور دینی ماحول سے کیسے وابستگی ہوئی؟

عبدالحبیب عطّاری : آج سے 41 سال پہلے کی بات ہے دعوت ِاسلامی ابھی بنی بھی نہیں تھی ، 1980میں میرے والدِ ماجد مرحوم حاجی یعقوب گنگ عطّاری کے ٹانسلز کا آپریشن ہوا تھا ، امیرِ اہلِ سنّت میرے والد صاحب کی عیادت کرنے ہاسپٹل تشریف لائے ، قربان جائیے امیرِ اہلِ سنّت کی انفرادی کوشش کے! آپ نے بیماری اور موت دونوں کا تذکرہ کرکے میرے والد صاحب کے دل میں آخرت کی یاد تازہ کردی اورعیادت کے دوران ابو کو داڑھی رکھنے کی نیت بھی کروادی ، ابو خود بتاتے تھے کہ امیرِ اہلِ سنّت نے مجھ سے کہا : حاجی یعقوب! دیکھو آپریشن تو ہورہا ہے زندگی موت کا کوئی بھروسا نہیں ہے داڑھی چہرے پر سجالو۔

ابّو ایک جملہ بڑا پیارا کہا کرتے تھے : میری داڑھی کی عمر اتنی ہی ہے جتنی دعوتِ اسلامی کی عمر ہے۔ اس کے بعد دعوتِ اسلامی شروع ہوگئی ، کھارادرکے علاقے کا امیر(نگران) میرے ابّو کو بنایا گیا اس زمانے میں دعوتِ اسلامی کے امیر ہوتے تھے نگران کی اصطلاح بعد میں آئی لیکن چونکہ ابو کاروباری آدمی تھے اس لئے دینی  کام اتنا نہ کرپائے!البتّہ انتظامی امور میں امیرِ اہلِ سنّت کے ساتھ کافی رہے۔

اب میری وابستگی دعوتِ اسلامی سے کیسے ہوئی یہ سنئے! کھارادرمیں شہید مسجد ہمارے گھر سے پچھلی گلی میں تھی اس طرح امیرِ اہلِ سنّت  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ  کی خدمت میں حاضری کی سعادت بار بار حاصل کرتا رہا۔

(عبد الحبیب عطاری والدِ محترم کے ایک احسان کو یاد کرتے ہوئے بتانے لگے) یہاں میں ایک بات کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ آپ اپنے بچے کو بچپن سے اپنے ساتھ رکھیں ، بعض لوگ بچوں کو چودہ پندرہ سال تک تو چھوڑے رکھتے ہیں کہ ابھی چھوٹا ہے کھیل کود کے دن ہیں پھر اپنے ساتھ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں مگر بچہ اب بڑا ہوجاتا ہے اس لئے ہاتھ نہیں آتا اور بڑی مشکل ہوجاتی ہے۔ میرے والد محترم کا مجھ پر یہ احسان ہے کہ مجھے سات آٹھ سال کی عمر میں اپنے ساتھ لگالیا تھا ہر جگہ ، ہر اجتماع میں مجھے ضرور لے جاتے تھے پھر والد صاحب نے تیرہ چودہ سال کی عمر میں مجھے چھوڑ دیا اور  فرمایا کہ اب آپ خود اجتماع میں جائیں ، اب مجھے دعوتِ اسلامی کے ماحول میں لطف و سرور آنے لگااس طرح میں آہستہ آہستہ دعوتِ اسلامی کا حصّہ بن گیا۔

خالد عطّاری : یعنی یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپ 8 سال کی چھوٹی سی عمر میں دعوت ِاسلامی سے وابستہ ہوچکے تھے؟

عبدالحبیب عطّاری : بالکل کہہ سکتے ہیں ، میں نے یہاں ہوش سنبھالا اور وہاں دعوتِ اسلامی دیکھی ، مجھے اچّھی طرح یاد ہے کہ گلزارِ حبیب میں دعوتِ اِسلامی کے زیرِ اہتمام ہونے والے پہلے اعتکاف میں میرے والد صاحب بھی تھے اور میں وہ واحد مدنی منّا تھا جس کو وہاں اعتکاف کرنے کی اجازت ملی تھی۔

خالد عطّاری : آپ کی دینی اور دنیاوی تعلیم کتنی ہے؟

عبدالحبیب عطّاری : جہاں تک دنیاوی تعلیم کی بات ہے! میں نے میٹرک کراچی کے ایک مشہور اور بڑے اسکول سے کیا جس کا نام “ حبیب پبلک اسکول “ ہے اس کے بعد “ ایس ایم سائنس کالج “ سےانٹر کیا ، (پھر مسکراتے ہوئے بتانے لگے) چودہ پندرہ سال کی عمر سے ہی دن کاروباری مصروفیات میں گزرنے لگےتھے اور 19 سال کی عمر میں شادی بھی ہوگئی تھی ، باقاعدہ دینی تعلیم حاصل کرنے اور علم کے چھلکتے ہوئے جام پینے کے لئے بظاہر اسباب نظر نہیں آرہے تھے ، لیکن اللہ کریم کا کرم ہوگیا کہ 20 سال کی عمر میں درسِ نظامی میں داخلہ لیا اور یہ سلسلہ اس طرح آگے بڑھا کہ قبلہ مفتی امین صاحب  رحمۃُ اللہِ علیہ  نے رات میں درسِ نظامی کی کلاسز شروع کیں تو ایک دوست عبد القادر عطّاری نے میرا ذہن بنایا کہ ہم رات میں درسِ نظامی کی کلاسز لے لیتے ہیں لیکن میری مجبوریاں آڑے آرہی تھیں ، ان کا گھر تھا لائٹ ہاؤس پر اور میرا گھر کلفٹن میں جبکہ کلاسز لینے جمشید روڈ جانا تھا لہٰذا وہ روزانہ کلفٹن آتے مجھے لے کر جمشید روڈ پہنچتے وہاں ہم دونوں کلاس لیتے پھر وہ مجھے کلفٹن چھوڑ کر واپس اپنے گھر لائٹ ہاؤس پہنچتےتھے ، دیکھتے ہی دیکھتے ایک سال کا عرصہ گزر گیااور ہم درجۂ ثانیہ میں پہنچ گئے لیکن کچھ مسائل کی وجہ سے عبد القادر عطّاری مزید کلاسز نہ لے سکے لیکن محبّتوں اور شفقتوں کے پیکر استاد ِمحترم مفتی امین صاحب نے مجھ سے فرمایا : آپ نے ضرور آنا ہے ، کلاسز چھوڑنی نہیں ہیں۔ اب میں اکیلے آنے لگا اس طرح علم کے میدان میں آگے بڑھتے بڑھتے رات میں 5 درجے پڑھ لئے۔ اب سراپا علم وعمل قبلہ مفتی صاحب نے ذہن دیا کہ دارُ العلوم امجدیہ میں داخلہ لے لیں ، مفتی صاحب کے فرمان پر میں نے دارُالعلوم امجدیہ میں داخلہ لے لیا اور وہاں سادسہ ، سابعہ اور دورۂ حدیث مکمل کرکے2001ء میں تکمیلِ درس نظامی کی سعادت سے بہرہ مند ہوگیا۔

مہروز عطّاری : سنا ہے کہ آپ اسٹوڈنٹ لائف میں کسی انجمن سے بھی وابستہ رہے؟

عبدالحبیب عطّاری : جی ہاں!دارُ العلوم امجدیہ کی بزم سے کچھ اچّھی بلکہ بہت اچّھی یادیں وابستہ ہیں ، دارُالعلوم میں تمام طلبہ کی ایک بزم “ بزمِ امجدی رضوی “ تھی ، اس بزم کا صدر دورۂ حدیث کا طالب علم ہوتاتھا جسے طلبہ ہر سال خود چنتے تھے۔ حضرت علامہ مولانا سیدشاہ ترابُ الحقّ قادری  رحمۃُ اللہِ علیہ  اس صدر سے حلف لیتے تھے۔ حلف برداری کی پُروقار تقریب سے ایک رات پہلے مجھے مہتمم مولانا ریحان امجد نعمانی صاحب کا فون آیا کہ کل حلف برداری کی تقریب ہے اور صدر کے لئے آپ کا انتخاب ہوا ہے۔ میں نے اپنے استاذ صاحب مفتی امین صاحب اور نگرانِ شوریٰ حاجی عمران عطّاری سے رابطہ کیا تو انہوں نے یہی مشورہ دیا کہ آپ حلف اٹھالیں اِنْ شآءَ اللہ اس سے دین کو بہت فائدہ ہوگا۔ اس طرح “ بزمِ امجدی رضوی “ کا صدر بننے کا مجھے اعزاز مل گیا۔ اور تحدیثِ نعمت کے طور پر بتارہا ہوں کہ اللہ رحیم کی رحمت سےمیں نے وہاں کئی نئے کام کئے جس پر مجھے سالانہ تقریب میں ایوارڈ بھی ملا بلکہ درسِ نظامی سے فراغت کے بعد مزید ایک سال اس عہدے پر فائز رہنے کا بھی مجھے اعزاز حاصل ہے۔

مہروز عطّاری(محتاط اندازمیں) : اچّھا!ابھی آپ نے بتایا تھا کہ آپ کی شادی 19سال کی عمر میں ہوئی ، کیا یہ شادی کے لئے چھوٹی عمر نہیں ؟

عبد الحبیب عطّاری : جب بندہ سمجھ بوجھ اور عقل وشعور کی منزل پر پہنچ جائے تو اس کی شادی ہوجانی چاہئے اور 19 سال کم عمری اور ناسمجھی کی عمر نہیں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میرے دونوں بیٹے بھی 20 سال کی عمر میں رشتۂ ازدواج سے منسلک ہوگئے ، اس کا ایک بڑا فائدہ تو یہ ہےکہ  جب باپ کی عمر 40 یا 45 سال تک پہنچتی ہے تو اس کی اولاد اس وقت جوان ہوجاتی ہے دوستانہ اور تربیت والا ماحول ہوتا ہے ، بیٹے والد کے شانہ بشانہ کام کرتےہیں اس کا سہارا بنتے ہیں اور والد اس وقت اپنا کام اولاد کو سپرد کرکے اپنی بقیہ زندگی کو آسانی سے سماجی کاموں اور عبادتِ الٰہی میں گزار سکتا ہے۔

مہروز عطّاری : میں یہاں یہ بھی بتانا پسند کروں گاکہ میں نے حاجی عبدالحبیب صاحب اور ان کے والدِ مرحوم کے درمیان دوستانہ ماحول بھی دیکھا ہے اور ادب و احترام اور تقدّس کے رشتے کوقائم بھی دیکھا ہے ، حاجی صاحب کو اس عمر میں بھی اپنے والدِ محترم کے ہاتھوں کا بوسہ لیتے ہوئے دیکھا ہے۔

خالد عطّاری(مسکراتے ہوئے) : معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنے والدین کے ساتھ بہت اچّھا اور یاد گار وقت گزارا ہے شاید اسی وجہ سے آپ اپنے بیانات میں جابجا والدین کی خدمت کرنے کا درس دیتے نظر آتےہیں۔

عبد الحبیب عطّاری : سچ تو یہ ہے کہ میں اپنی دینی اور مذہبی ذمہ داریوں کی وجہ سے والدین کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارسکا۔ والدصاحب میرے چھوٹے بہن بھائیوں سے کہا کرتے تھے : عبدالحبیب کو کچھ نہ کہنا میں نے اس کو اپنےسارے حقوق معاف کردیئے ہیں اور والدہ کی مَحبّت ، شفقت ، الفت اور چاہت سب سے زیادہ مجھ سے ہوا کرتی تھی ، مجھے کبھی کبھی ان کا جملہ یاد آجاتا ہے : “ بیٹا! اب کیا مدنی چینل پر ہی دیکھتی رہوں گی “ ، مجھے اس کا افسوس رہے گا کہ میں ان کی زندگی کے آخری دنوں میں ان کے ساتھ زیادہ نہیں رہ سکا۔ اور اب میرے پاس والدین کی سکھائی ہوئی باتیں ، ان کے احسانات اور کچھ یادداشتیں ہی باقی رہ گئیں ہیں۔ لیکن یہ بات مجھے حوصلہ دیتی ہے کہ وہ مجھ سے خوش ہوکر اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔

مہروز عطّاری : دل میں کسی چیز کی حسرت پیدا ہوتی ہے؟

عبد الحبیب عطّاری : مفتیانِ کرام کو دیکھتا ہوں تو دل میں ایک کَسَک پیدا ہوتی ہے شاید تعلیم جاری رکھ لیتا تو مفتی بن جاتا۔

خالد عطّاری : آپ کے والد صاحب بھی سماجی خدمات میں آگے آگے رہتے تھے اور آپ بھی آج کل ایف جی آر ایف میں بحیثیتِ نگران بہت ایکٹیو ہیں اس کے بارے میں کچھ ارشاد فرمائیں۔

عبد الحبیب عطّاری : سچ پوچھئے تو جب مجلسِ شوریٰ میں FGRF شعبہ کے متعلق مشورہ ہورہا تھا تو میرےدل میں ایک خواہش انگڑائی لے رہی تھی کہ کاش یہ شعبہ مجھے مل جائے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہےکہ میرا ایک بنیادی کام دعوتِ اسلامی کے لئے ڈونیشن کی بات کرنا ہے ، اس دوران کئی لوگ کہا کرتے تھے : بھئی!کوئی فلاحی کام کرتے ہو؟کسی کا علاج معالجہ کروانا ہے تو بتاؤ ہم تو غریبوں کی مدد کرتے ہیں۔ اب میرے لئے یہ کام بہت آسان ہوگیا ہے۔

مہروز عطّاری : مستقبل میں اس شعبے کی کیا پلاننگ ہے؟

عبد الحبیب عطّاری : بہت زبردست پلاننگ ہے میں نے ابھی دو تین دن پہلے تقریباً بارہ ملکوں میں اس حوالے سے مشورہ کیا ہے۔ اسی طرح معذوروں کے لئے “ فیضان ری ہیبیلٹیشن(Rehabilitation ) سینٹر “ کی ہم 4 برانچیں کراچی میں مزید کھولنے جارہے ہیں ، بیرونِ ملک میں اس کی ڈیمانڈ بہت زیادہ ہے۔ اسی طرح ماحولیات کے ایک بہت بڑے ادارے WWF (World Wildlife Fund) کے ساتھ M O U سائن ہوا ہے ہم اس کے ساتھ مل کر یکم اگست کو دعوتِ اسلامی ایف جی آر ایف کی طرف سے “ پلانٹیشن ڈے “ منانے جارہے ہیں یہ پاکستان میں ایک تاریخی دن ہوگا جب لاکھوں اسلامی بھائی ، دارُالمدینہ اور جامعات و مدارس کے سارے اسٹوڈنس پودے لگائیں گے اِن شآءَ اللہ اس بار یومِ آزادی چودہ اگست سرسبز پاکستان کے ساتھ ہوگا۔

مہروز عطّاری : مدارس ، جامعات یا ویلفیئر سسٹم اس طرح کے اور کئی شعبے ہیں جن کو چلانا بظاہر آسان نہیں لگتا لیکن اس کی کیا وجہ ہے کہ دعوت ِ اسلامی نے ان میں بھی اپنا ایک نمایاں نام اور مقام پید اکرلیا ہے ؟

عبدالحبیب عطّاری : یہ واقعی اللہ پاک کی خاص عطا ہے اور میں تو یہی کہوں گا کہ یہ امیرِ اہلِ سنّت کے اخلاص کی برکت ہے مدنی چینل کو ہی دیکھ لیں کہ آج اللہ رحیم کی رحمت سے لیڈنگ(Leading) چینل ہے۔

مہروز عطّاری : آپ بزنس بھی سنبھالتے ہیں اور سفر بھی کرتے ہیں ، دونوں کوکس طرح لےکر چلتے ہیں اور سفر کے اخراجات کہاں سے پورے کرتےہیں؟

عبدالحبیب عطّاری : شروع میں والد صاحب نے ایک فیصلہ بڑا اچّھا کیا تھا کہ مجھے ، میرے چھوٹے بھائی اور والدہ کو اپنے کاروبار میں پارٹنر کرلیا تھا اور مجھے یہ کہہ دیا کہ ہم بزنس کریں گے آپ دین کا کام کریں اور آپ کو پورا حصّہ بھی دیں گے ، پھر ہم نے آفس میں غوث ِپاک رحمۃ اللہ علیہ  کی نیاز کے نام سے ایک اکاؤنٹ کھولا اور اس میں اپنی آمدنی کا 5 فیصد جمع کرتے تھے۔ والد صاحب نے مجھ سے کہا : بیٹا!سفر کے جو بھی اخراجات آتے ہیں وہ غوث ِپاک کی نیاز والے اکاؤنٹ سے لے لیا کریں دعوت ِاسلامی سے کچھ نہ لیا کریں۔ اس طرح مجھے کافی آسانی رہی ہے۔ والد صاحب کے انتقال کے بعد اپنے کاروبار کی طرف توجّہ کی اور اب میرے بچّے کاروبار کو سنبھال رہے ہیں۔ (انٹرویو کا بقیہ حصہ اِن شآءَ اللہ اگلے ماہ کے شمارے میں )


Share

Articles

Comments


Security Code