اللہ ربُّ العزّت کے پیارے نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اِس کائنات کے سب سے دانش مند اور کامیاب ترین مُعلّم
ہیں، کیوں نہ ہوں کہ خود ربِّ کریم نے انہیں مُعلّم بناکر بھیجا چنانچہ فرمانِ
مصطفےٰ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اِنَّمَا بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے مُعلّم بناکر بھیجا گیا۔(ابنِ ماجہ،ج1،ص150،حدیث:229)
”ماہنامہ
فیضانِ مدینہ“ کے گزشتہ دو شماروں میں ”وہ جو نسلیں سنوارتے ہیں“ کے نام سے لکھا
گیا تھا کہ ایک استاذ کو کیسا ہونا چاہئے؟ ذیل میں اسی سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے پیشِ
خدمت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا سمجھانے اور سکھانے کا انداز کیا تھا تاکہ
اساتذۂ کرام اس طریقہ کو اپناکر اصلاحِ طلبہ کا ذریعہ بنیں۔
احادیثِ مُبارَکہ
اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کے مُطالَعہ سے واضح ہوتا ہے کہ اللہ کریم کے پیارے حبیب صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم صحابۂ کرام،
صحابیات، اہلِ بیتِ اطہار اور مکّۂ مکرّمہ و مدینۂ منوّرہ کے بچوں اور بچیوں کی
کس قدر اچّھے اور دل میں رَچ بَس جانے والے انداز سے اِصلاح و تعلیم فرماتے تھے۔ ایک
استاذ کو سیرتِ مصطفےٰ سے ملنے والے چند تدریسی مدنی پھول ملاحظہ کیجئے:
طالبِ علم کو مرحبا کہنا استاذ کو چاہئے کہ جب درجے میں آئے تو مسکراتے ہوئے، ہشّاش بشّاش طبیعت کا مُظاہرہ کرتے ہوئے
آئے اور بعد میں آنے والے طلبہ کا بھی
خیرمَقدَم کرے۔ حدیثِ پاک میں ہے: حضرت سیّدنا صفوان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبیِّ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس وقت آپ اپنی چادر
پر ٹیک لگائے مسجد میں تشریف فرما تھے، تو میں نے عرض کی: میں علم حاصل کرنے کے
لئے حاضرِ خدمت ہوا ہوں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”مَرْحَباً بطالبِ الْعِلْمِ یعنی طالبِ علم کو خوش آمدید!“مزید فرمایا کہ ”طالبِ علم
پر فرشتے اپنے پروں سے سایہ کرتے ہیں۔“(معجمِ کبیر،ج8،ص54،حدیث:7347)
حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے صحابہ کو بھی یہی وصیّت فرمائی کہ ”عنقریب تمہارے پاس قومیں علم طلب کرنے کیلئے آئیں گی، پس
جب تم انہیں دیکھو تو ان سے کہو: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی وصیّت کے مطابق
خوش آمدید! خوش آمدید! “ پھر فرمایا: ”اور انہیں تعلیم دو۔“(ابنِ ماجہ،ج 1،ص161، حدیث:247)
سائل کی طرف توجہ رکھنا اگر کوئی طالبِ علم سوال کرے تو بےتوجّہی سے جواب دینا
مفید نہیں، بلکہ خاص اس کی طرف متوجّہ ہوکر جواب دینا چاہئے، روایت میں ہے کہ ایک شخص نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمت میں حاضر
ہوکر سوال کیا تو رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے اس کی طرف سَرِ مبارک اُٹھایا۔ راوی نے بیان
کیا: آپ نے اس کی طرف سَر اس لئے اُٹھایا کہ وہ (سائل) کھڑا تھا۔ پھر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس کے سوال کا
جواب ارشاد فرمایا۔ (بخاری،ج 1،ص65،
حدیث:123)
طلبہ کو خاموش ہونے کی نصیحت کرنا اور متوجّہ کرنا اَہم بات
کرنے اور کچھ سمجھانے سے پہلے اُستاذ کو
چاہئے کہ تمام طَلبہ کو خاموش کروائے اور توجّہ سے سننے کی ترغیب دلائے، ورنہ کئی
طلبہ کا اس اَہم بات سے فائدہ اٹھانے
سے محروم رہنے کا اندیشہ ہے۔ حدیثِ مُبارَکہ میں ہے کہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم عرفات میں کھڑے ہوئے اور اس وقت سورج غروب ہونے
کے قریب تھا۔ پس آپ نے فرمایا: ”اے بلال! لوگوں کو میرے لئے خاموش کراؤ۔“ پس
بلال رضی اللہ
عنہ اٹھے اور کہا:رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کیلئے چپ ہوجاؤ۔“
(الترغیب والترھیب،ج 2،ص130،حدیث:7)
حضرت سیّدنا خَبَّابرضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ہم نبی صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے دروازے پر بیٹھے تھے کہ آپ ہمارے پاس تشریف لائے تو فرمایا: ”سُنو“
ہم نے عرض کی: ”یقیناً ہم نے سُنا (یعنی ہم
سننے کے لئے تیّار ہیں) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”سُنو“
ہم نے عرض کی: ”یقیناً ہم نے سُنا۔“ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ”سُنو“ ہم نے عرض کی: ”یقیناً ہم نے
سُنا۔“(صحیح ابنِ حبان،ج 1،ص251، حدیث:284)
طالبِ علم کو نام یا کُنیت سے مُخاطب کرنا جب کوئی ایک یا چند طَلبہ مقصودِ کلام
ہوں تو ان کے نام اور کُنیت سے پکار کر بات کرنا زیادہ توجّہ کا باعث ہوتاہے، رسولِ
کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مُبارک سیرت اور اَحادیث میں بکثرت ”یا اَبَابَکْر“، ”یاعائِشَۃ“ ”یافَاطِمَۃ“، ”یاعَلی“، ”یااَبَاذَر“ وغیرہ مَروی ہے۔
مضامین کا انتخاب و ترتیب ایک قابل استاذ کیلئے
ضروری ہے کہ وہ اپنے طلبہ کی ضرورت اور اپنی مہارت کے مطابق مضامین کا انتخاب کرے،
جو سبق پڑھانا ہے اسے ایسی عمدہ ترتیب دے کہ طلبہ تدریجاً (آہستہ آہستہ) سیکھتے چلے
جائیں۔ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سیرتِ طیّبہ کا مُطالَعہ کرنے سے واضح ہوتا
ہے کہ آپ صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے شروع میں زیادہ
تر عقائد کے موضوع پر توجّہ دلائی اور جب صحابۂ کرام عقائد میں پختہ ہوگئے تو اُنہیں
عبادات و معاملات وغیرہ کی تعلیم حسبِ حال عطا فرمائی۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے اس حُسنِ
انتخاب اور ترتیب پر غور کریں تو پتا چلتا ہے کہ عبادات میں دلجمعی، معاملات میں
صفائی اور اخلاق میں پاکیزگی کے لئے عقائد کی پختگی نہایت ضروری ہے۔ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے فرامین میں طِب،
نفسیات، نباتیات اور دیگر کئی عُلوم و فنون کا ذخیرہ ملتا ہے، لیکن عقائد کی تعلیم
سب سے پہلے ہے۔ ایک استاذ کو بھی یہی انداز اپنانا چاہئے کہ جو بات یا علوم و فنون
کسی دوسرے علم پر موقوف ہوں تو وہ (یعنی موقوف عَلیہ عُلوم) پہلے سکھائے۔
طلبہ کے مُطالبہ پرسبق دُہرادینا ہر طالبِ علم مضبوط قوّتِ فہم کا مالک نہیں ہوتا، بعض پہلی
بار ہی میں سبق سمجھ جاتے ہیں جبکہ بعض کو دو یا زیادہ بار دُہرائی کی حاجت ہوتی
ہے، چنانچہ اگر کوئی طالبِ علم سبق دوبارہ بیان کرنے کی التجا کرے تو بیان کردینا
چاہئے کہ سیرتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے بھی یہی مُستَفادہے۔حضرت
سیّدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اے ابو سعید! جو اللہ کے ربّ ہونے پر، اسلام کے دِین ہونے پر اور محمد صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم کے رسول ہونے پر
راضی ہوا اس کےلئے جنّت واجب ہوگئی۔ اس بات سے
خوش ہوکر ابو سعید رضی
اللہ عنہ نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ میرے لئے یہ بات دوبارہ فرمادیجئے۔“ تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کیا (یعنی کہی ہوئی بات کو دُہرادیا)۔(مسلم،ص806، حدیث:4880)
طالبِ علم کے سوال پر حوصلہ افزائی کرنا ایک استاذ کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہئے کہ جو طلبِ علم کیلئے
آتا ہے وہ سوالات بھی کرتا ہے اور جو استاذ طلبہ کے سوال کرنے پر ان کی حوصلہ
افزائی کرتے ہیں طلبہ میں مقبول اور افادۂ عِلمی کا سبب بننے کے ساتھ ساتھ طالبِ
علم میں طلبِ علم کی تڑپ مزید بڑھانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اچّھے سوال پر
صحابۂ کرام کی حوصلہ افزائی فرمایا کرتے
تھے، حضرت معاذ بن
جبل رضی
اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے عرض کی: ”یارسولَ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم! مجھے جنّت میں داخل کردینے والا عمل بتائیے!“ آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”شاباش!
شاباش! بے شک تُو نے عظیم (چیز) کے بارے میں سوال کیا۔ اور بِلاشبہ
وہ اس شخص کیلئے آسان عمل ہے جس پر اللہ آسان کردے۔ فرض
نماز پڑھو اور فرض زکوٰۃ ادا کردو۔“(مسند ابی داؤد
طیالسی، ص76، حدیث: 560)
مسلسل سوالات بعض طلبہ سوال پر سوال کرتے چلے جاتے
ہیں، اگر وہ سوالات عمومی فائدہ کے حامل ہوں تو رد (Reject) کرنے کے بجائے
مناسب انداز میں جواب دینا چاہئے۔ صحابیِ رسول حضرت سیّدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”میں
نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے پوچھا: کون سا عمل اللہ کے ہاں سب سے پیارا ہے؟“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”نماز اپنے وقت پر (ادا کرنا)۔“ دریافت کیا: ”پھر
کونسا؟“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”والدین کے ساتھ نیکی کرنا۔“ میں نے
دریافت کیا؟ ”پھر کونسا؟“ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:”اللہ کی راہ میں جہاد کرنا۔“ راوی کا بیان ہے:”رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم نے مجھے ان (اعمال) کے متعلق بتلایا۔
اگر میں مزید(سوالات) پوچھتا، تو آپ صلَّی اللہ علیہ
واٰلہٖ وسلَّم اور زیادہ بتلاتے۔“ (بخاری،ج 1،ص196، حدیث:527)
Comments