وہ
سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر
ہوئے تھے |
وہ سَرورِ
کِشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گَر ہوئے
تھے |
نئے نرالے
طَرَب کے ساماں عرب کے مہمان کے لیے تھے |
وہاں فلک پر
یہاں زمیں میں رَچی تھی شادی مَچی تھی دُھومیں |
اُدھر سے
اَنوار ہنستے آتے اِدھر سے نَفْحات اُٹھ
رہے تھے |
خدا ہی دے
صبر جانِ پُرغم دِکھاؤں کیوں کر تجھے وہ
عالَم |
جَب اُن کو
جُھرمٹ میں لے کے قُدسی جِناں کا دولھا
بنا رہے تھے |
نمازِ
اَقصیٰ میں تھا یہی سِرّ عیاں ہو معنیِ اوّل آخر |
کہ دَست
بَستہ ہیں پیچھے حاضر جو سلطنت آگے
کرگئے تھے |
خدا کی قدرت
کہ چاند حق کے کروڑوں منزل میں جلوہ کرکے |
ابھی نہ
تاروں کی چھاؤں بدلی کہ نور کے تڑکے آلیے تھے |
نبیِّ رحمت
شفیعِ اُمّت! رضاؔ پہ لِلّٰہ ہو عنایت |
اسے بھی ان
خلعتوں سے حصہ جو خاص رَحمت کے واں بٹے تھے |
ثنائے سرکار
ہے وظیفہ قبولِ سرکار ہے تمنّا |
نہ شاعری کی
ہَوَس نہ پروا رَوِی تھی کیا کیسے قافیے
تھے |
حدائقِ بخشش،ص229 از امامِ اہلِ سنت امام احمد
رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن |
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حَرَم کی ہے |
ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا حرم کی ہے |
بارش اللہ کے کرم کی ہے |
یا الٰہی!
غمِ مدینہ دے |
اِلتجا
مصطفےٰ کے غم کی ہے |
قلبِ مُضطَر
کی لاج رکھ مولیٰ |
یہ صدا میری
چشمِ نَم کی ہے |
آفتوں سے
بچالے یااللہ |
مجھ پہ
یلغار رنج و غم کی ہے |
بگڑی تقدیر
ابھی سنور جائے |
دیر اِک جُنْبِشِ قلم کی ہے |
بخش دے اب
تو مجھ کو یا اللہ |
یہ دُعا تجھ
سے چشمِ نم کی ہے |
کاش ! ہر
سال حج کرے عطّاؔر |
عرض بدکار
پر کرم کی ہے |
وسائلِ بخشش (مُرَمَّم،)ص140 از شیخِ طریقت امیرِ اہلِ سنتدَامَتْ بَرَکاتُہُمُ الْعَالِیَہ |
Comments