ناصر کے موبائل پر اُس کے دوست
اکرم کی کال آرہی تھی، اس نے کال ریسیو کی تو اکرم کہنے لگا: یار ناصر! مجھے بازار جانا ہے،
آدھے گھنٹے کیلئے تمہاری بائیک
چاہئے۔ ناصر اپنی بائیک کی بڑی دیکھ بھال کرتا تھا اور کسی کو بھی نہیں دیتا تھا، اکرم
اُس کا قریبی دوست تھا اس لئے وہ انکار نہ کرسکا اور اسے مجبوراً کہنا پڑا: ٹھیک ہے گھر آکر لے جاؤ لیکن
جلدی آجانا۔ تین گھنٹے بعد اکرم مٹّی سے اَٹی ہوئی بائیک لے کر آیا
جس کے ایک طرف کچھ خراشیں بھی آئی ہوئی تھیں، اکرم کہنے لگا: یار! جہاں بائیک کھڑی کی تھی وہاں تعمیرات (Construction) کا کام ہورہا تھا، بس! وہیں سے کچھ مٹی لگ گئی اور بازار
میں کافی رَش تھا، جلدی میں ایک
گاڑی سے تھوڑی سی ٹکرہوگئی، معذرت یار! یہ کہہ کر مُسکراتے ہوئے بائیک چھوڑ کر چلا
گیا اور ناصر افسوس کرتا رہ گیا۔
اے عاشقانِ رسول! یہ واقعہ فرضی
ہی سہی لیکن اس حقیقت کی عَکّاسی ضرور کرتا ہے کہ بعض لوگ عاریتاً (یعنی عارضی طور
پر مانگ کر) لی ہوئی اشیاء کے حوالے سے کس قدر لاپروا ہوتے ہیں۔ مانگنے
کے عادی کچھ لوگ روز مرّہ کی عام اشیاء دوسروں سے مانگ تانگ کر اِستعمال کرنے کے
عادی ہوتے ہیں۔ قلم، پیڈ، موبائل کا چارجر، پانی کی بوتل وغیرہ ایسی چیزیں ہیں جو
زیادہ مہنگی نہیں ہوتیں اور کم و بیش ہر شخص اِنہیں خرید سکتا ہے۔ حد تو یہ ہے کہ کچھ لوگ دوسروں سے موٹر سائیکل، کار یا انٹرنیٹ ڈِیوائس کا پاس ورڈ
مانگنے سے بھی نہیں چُوکتے۔ بارہا ایسا ہوتا ہے کہ انسان اپنی چیز کسی دوسرے کو
عارضی طور پر دینے کے لئے ذِہنی طور پر تیّار نہیں ہوتا، لیکن مُروّت (یعنی لحاظ
کرنے) کے باعث یا تَعلّقات کی خرابی کے اندیشے کی وجہ سے مجبورا ً ہاں کردیتا ہے۔ بِالفرض اگر کسی مجبوری کی وجہ سے
دوسروں سے کوئی چیز مانگ کر استعمال کرنے کی نوبت آہی جائے تو اب اخلاقی تقاضا یہ
ہے کہ بقدرِ حاجت استعمال کے بعد چیز اس کے مالک کے پاس اچّھے انداز میں پہنچا کر
شکریہ ادا کیا جائے۔ موٹر سائیکل یا گاڑی استعمال کی ہے تو صاف ستھری حالت میں اور
جتنا پیٹرول استعمال کیا ہے، ممکن ہو تو خیر خواہی کرتے ہوئے اس سے زیادہ ڈلواکر واپس
کی جائے۔ بہتر یہ ہے کہ حتّٰی الْاِمکان کسی سے بھی کوئی چیز مانگنے سے بچا جائے۔
سرکارِ نامدارصلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے آزاد
کردہ غلام حضرت سیّدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے آپ
سے اس بات پر بیعت کی کہ کسی سے کچھ نہ مانگیں گے۔ اس کے بعد آپ رضی اللہ عنہ کا یہ عالَم تھا کہ گھوڑے پر سوار ہوتے اور کوڑا
(چابک) گِرجاتا تو کسی سے دینے کے لئے نہ کہتے بلکہ خود نیچے
تشریف لاکر اُٹھاتے۔(معجم کبير،ج8،ص206،حدیث:7832)
شیخِ طریقت،امیرِ اہلِ سنّت دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نیک بننے کے نُسخے یعنی مدنی انعامات میں، مدنی
انعام نمبر 25 میں فرماتے ہیں: آج آپ نے دوسروں سے مانگ کر چیزیں (مثلاً چادر، فون،
گاڑی وغیرہ) استعمال تو نہیں کیں؟(دوسروں سے سُوال کی عادت نکال دیجئے،
ضرورت کی چیز نشانی لگاکر اپنے پاس بحفاظت رکھیں)
اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے علاوہ کسی کا محتاج نہ رکھے
اور مانگنے کی عادتِ بد سے چھٹکارا عطا فرمائے۔
اٰمِیْن بِجَاہِ
النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…مجلس مدنی انعامات ،باب المدینہ کراچی
Comments