حضرت سیّدنا ابوہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسولِ
مقبول، بی بی آمنہ کے گلشن کے مہکتے پھول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ تَمَسَّکَ بِسُنَّتِی عِنْدَ فَسَادِ اُمَّتِی فَلَہُ
اَجرُ مِائَۃِ شَہِیْدٍ ترجمہ:
جو فسادِ امّت کے وقت میری سنّت پر عمل کرے گا اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔(مشکاۃ المصابیح،ج1،ص55، حدیث: 176)
شرحِ حدیث اس حدیثِ پاک میں یہ ارشاد
فرمایا گیا کہ جس نے فسادِ امّت کے وقت یعنی بدعت، جہالت اور فِسق و فُجور (گناہوں) کے غلبہ کے وقت سنّت پر
عمل کیا تو اسے سو شہیدوں کا ثواب ملے گا۔(مرقاۃ المفاتیح،ج1،ص422،تحت الحدیث:176) یہ ثواب ملنے کی وجہ وہ مشقّت ہے
جو اس وقت سنّت پر عمل کرنے والے کو سنّت زندہ کرنے اور اس پر عمل کرنے کے سبب ہوگی،
تو وہ اُس شہید کی طرح ہے جو اِحیائے دین کی کوشش میں شہید کردیا جائے۔(شرح الطیبی علی مشکاۃ،ج1،ص373، تحت
الحدیث:176 ماخوذاً) حدیثِ
پاک میں فسادِ امّت (یعنی امّت کا فاسد ہونا) فرمایا، اِفسادِ امّت (یعنی امّت کا فساد برپا کرنا)
نہ فرمایا کیونکہ
یہ زیادہ بلیغ ہے، گویا کہ اس وقت اُن کی ذوات ہی فاسد ہوجائیں گی تو ان سے صلاح
بالکل صادِر ہی نہیں ہوگی، کوئی وعظ ان کو فائدہ نہیں دے گا، جو بُرائی کررہے ہوں
گے اسے ترک نہیں کریں گے اور جس نیکی کا انہیں حکم دیا گیا ہے اسے کریں گے نہیں۔(شرح الطیبی علی مشکاۃ،ج1،ص373،تحت الحدیث: 176) ایک سنّت زندہ کرنے کے بارے میں
اعلیٰ حضرت کی ترغیب اعلیٰ
حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرَّحمٰن اس حدیثِ پاک کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: اور ظاہر ہے
کہ زندہ وہی سنّت کی جائے گی جو مُردہ ہوگئی اور سنّت مُردہ جبھی ہوگی کہ اُس کے
خلاف رواج پڑجائے۔ اِحیائے سنّت عُلما کا تو خاص فرضِ مَنصبی (ضروری کام ) ہے اور جس مسلمان سے ممکن
ہو اس کے لیے حکم عام ہے ہر شہر کے مسلمانوں کو چاہئے کہ اپنے شہر یا کم ازکم اپنی
اپنی مساجِد میں اس سنّت (یعنی مسجد سے باہَر اذان ہونے) کو زندہ کریں اور سَو سَو شہیدوں
کا ثواب لیں اور اس پر یہ اعتراض نہیں ہوسکتا کہ کیا تم سے پہلے عالِم نہ تھے یُوں
ہو تو کوئی سنّت زندہ ہی نہ کرسکے، امیرُالمؤمنین عُمر بن عبدُالعزیز رضی اللہ تعالٰی عنہ نے کتنی سُنّتیں زندہ فرمائیں اس پر ان کی مدح (تعریف) ہُوئی نہ کہ اُلٹا اعتراض
کہ تم سے پہلے تو صحابہ و تابعین تھے۔ رضی اللہ تعالٰی عنہم۔ (فتاویٰ رضویہ،ج5،ص403)احیائے سنّت کی فضیلت میں 2 فرامینِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
و سلَّم (1)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: وَمَنْ اَحْیَا
سُنَّتِی فَقَدْ اَحَبَّنِی، وَمَنْ اَحَبَّنِی کَانَ مَعِی
فِی الجَنَّۃ ترجمہ:
جس نے میری سنّت زندہ کی بیشک اُسے مجھ سے محبّت ہے اور جسے مجھ سے محبت ہے وہ جنّت
میں میرے ساتھ ہوگا۔ (ترمذی،ج4،ص309،حدیث:2687) (2)رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: مَنْ اَحْیَا سُنَّۃً مِنْ
سُنَّتِی قَدْ اُمِیتَتْ بَعْدِی، فَإِنَّ لَہُ مِنَ الاَجْرِ مِثْلَ مَنْ عَمِلَ بِہَا مِنْ غَیْرِ اَنْ
یَنْقُصَ مِنْ اُجُورِہِمْ شَیْئًا ترجمہ: جو میری کوئی سنّت زندہ کرے کہ لوگوں نے میرے بعد
چھوڑدی ہو جتنے اس پر عمل کریں سب کے برابر اسے ثواب ملے اور ان کے ثوابوں میں کچھ
کمی نہ ہو۔(ترمذی،ج 4،ص309، حدیث:2686)
تِری سنتوں پہ چل کرمِری روح
جب نکل کر
چلے تو گلے لگانامدنی مدینے
والے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…دارالافتاء اہل سنت،
مرکز الاولیا ء لاہور
Comments