سرکارِ نامدار، مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ خوشبودار
ہے:ذِكْرُ الْاَنْبِيَاءِ
مِنَ الْعِبَادَةِ وَذِكْرُ الصَّالِحِيْنَ كَفَّارَةٌ یعنی انبیا
کا ذکر عبادت اور نیک بندوں کا ذکر (گناہوں
کا) کفارہ ہے۔(جامع صغیر،ص264،حدیث:4331)
اے عاشقانِ رسول! جب انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا ذکر
عبادت ہے تو پھر سیّدُالانبیاء، محمدِمصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکرِ خیر اور آپ کے فضائل و خصائل کا لکھنا، پڑھنا اور سننا
یقیناً دل کا سُرور اور آنکھوں کا نور ہوگا۔ آئیے! اپنے دل اور آنکھوں کو ٹھنڈا
کرنے کے لئے اللہ کے پیارے نبی، رسولِ ہاشمی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فضائل و خصائص کا
مطالعہ کرتے ہیں:
12خصائصِ مصطفےٰ کا مدنی گلدستہ
(1)رحمتِ عالَم صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے معجزات تمام انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کے معجزات سے زیادہ ہیں۔
ایک قول کے مطابق ساٹھ ہزار معجزے قراٰنِ
کریم میں ہیں جبکہ تین ہزار اس کے علاوہ ہیں۔(انموذج
اللبیب،ص44) دَرحقیقت سرکارِ
نامدار صلَّی اللہ
علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے
معجزات بےشمار ہیں۔(دلائل النبوۃ،ج1،ص18،الشفا،ج1،ص253)
قدرتِ رب کا آئینہ ٹھہرا تیرا
ہر معجزہ رسول اللہ
(2)اللہ کے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کسی
گنجے کے سر پر ہاتھ پھیرتے تو اسی وقت اس کے بال نکل آتے۔ کسی درخت کا بیج بوتے تو
وہ اُسی سال پھل دیتا۔(کشف الغمۃ،ج2،ص64)
(3)کسی کے سر پر اپنا دستِ مبارک
رکھتے تو ہاتھ کے نیچے آنے والے بال کالے
ہی رہتے، کبھی سفید نہ ہوتے۔(خصائصِ کبریٰ،ج2،ص138)
(4)دو عالَم کے سردار صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اللہ کی تمام مخلوق میں سب سے افضل و اعلیٰ ہیں۔([1]) (بہارِ شریعت،ج1،ص63 مفہوماً)
سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی سب سے بالا و والا ہمارا نبی
(5)رسولِ کریم صلَّی
اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اعلانِ نَبُوَّت
سے پہلے اور بعد ہر قسم
کے صغیرہ کبیرہ گناہوں سے پاک ہیں۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے جان بوجھ کر یا بُھولے سے، ظاہر میں یا باطن میں، پوشیدگی میں یا اعلانیہ، سنجیدگی میں یا مزاح میں، خوشی میں یا غصے
میں الغرض کسی حالت میں کسی گناہ کا صُدور ممکن نہیں۔ دیگر تمام انبیائے کرام علیہمُ الصَّلٰوۃ والسَّلام کا بھی
یہی معاملہ ہے۔(زرقانی علی المواھب،ج7 ،ص327)
(6)حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) خَاتَمُ النَّبِیِّیْن ہیں یعنی اللہ عَزَّوَجَلَّ
نے سلسلۂ نبوت حضور پر ختم کردیا کہ حضور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کے زمانہ میں یا بعد کوئی نیا نبی نہیں آسکتا۔ (بہار
شریعت،ج1،ص63)قراٰنِ کریم کی مختلف آیات اور کثیر احادیث میں اس
بات کو بیان کیا گیا ہے۔([2])
(7)حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دونوں شانوں (کندھوں) کے درمیان کبوتر کے انڈے کے برابر مُہْرِ نَبُوَّتتھی۔
یہ بظاہر سرخی مائل اُبھرا ہوا گوشت تھا۔ (سیرت مصطفےٰ، ص565) (مُہْرِ نَبُوَّت کو) نیچے سے دیکھو تو پڑھنے میں آتا تھا: اَﷲُ وَحْدَہٗ لَاشَرِیْكَ لَہٗ،([3])اوپر سے دیکھو تو پڑھا جاتا تھا: تَوَجَّہْ حَیْثُ کُنْتَ فَاِنَّكَ مَنْصُورٌ۔([4]) اسے مُہْرِ نَبُوَّت اس لیے کہتے تھے کہ گزشتہ آسمانی کُتُب میں اس مُہْر کو حضور صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے خَاتَمُ النَّبِیِّیْن ہونے کی علامت قرار دیا گیا تھا، وفات کے وقت یہ مُہْر شریف
غائب ہوگئی تھی۔ (مراٰۃ المناجیح،ج1،ص318) بَحِیرہ راہب یہی
مُہْرِ نَبُوَّت دیکھ کر ایمان لایا تھا۔(مراٰۃ
المناجیح،ج 8،ص45) یہ مُہْر خَاتَمُ النَّبِیِّیْن ہونے کی علامت تھی اسی لیے کسی (اور) نبی
کو یہ مُعْجِزہ عطا نہیں ہوا۔(مراٰۃ
المناجیح،ج8،ص57)
نہ
ہوگا کوئی بعد ان کے پَیَمْبَر
بتاتی
ہے مُہْرِ
نَبُوَّت نبی کی
(8)حضور(صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم)کے خصائص (میں) سے معراج ہے، کہ مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ تک اور وہاں سے
ساتوں آسمان اور کُرسی و عرش تک، بلکہ بالائے عرش (یعنی عرش سے بھی اوپر) رات کے ایک خفیف (معمولی) حصّہ
میں مع جسم تشریف لے گئے۔(بہار شریعت،ج 1،ص67، تکمیل الایمان، ص128 ، حدیقہ ندیہ،ج1،ص272)
وہ سرورِ کشورِ رسالت جو عرش پر جلوہ گر ہوئے تھے
نئے نرالے طرب کے ساماں عرب کے مہمان کے لئے تھے
(9)ربّ کے محبوب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے سر کی آنکھوں سے اللہ کریم کی زیارت کی اور بغیر کسی واسطے کے اس کا کلام سنا۔(مسند احمد،ج1،ص611،حدیث:2580،بہار شریعت،ج 1،ص687)
کس کو دیکھا یہ موسیٰ سے پوچھے کوئی
آنکھ والوں کی ہمت پہ لاکھوں سلام
(10)حضرت سیّدُنا اسرافیل علیہ السَّلام نے
صرف نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں حاضری دی، اس سے پہلے کسی
اور نبی علیہ السَّلام کے پاس نہ آئے۔(کشف الغمۃ،ج2،ص54)
(11)فرشتے ہر وقت حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ذکر کرتے ہیں۔(کشف الغمۃ،2/53)
نازِشیں
کرتے ہیں آپس میں مَلَک
ہیں
غلامانِ شہہِ ابرار ہم
(12)رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام مخلوقِ
خدا میں سب سے زیادہ عقل والے ہیں۔(مواہب لدنیہ،ج2،ص196)
تابعی بزرگ حضرت سیّدُنا وَہْب بن مُنَبِّہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:میں نے 71 کتابوں میں یہ بات پڑھی ہے کہ رسولِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب
لوگوں سے زیادہ عقل والے اور بہتر رائے والے ہیں۔(تاریخِ دمشق،ج 3،ص386)
ایک روایت کے مطابق ان تمام کتابوں میں لکھا تھا: اللہ پاک نے دنیا کے آغاز سے انجام
تک تمام لوگوں کو جس قدر عقلیں مَرْحمت فرمائی ہیں ان سب کی عقلیں سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی
عقلِ مبارک کے سامنےایسے ہیں جیسے دنیا بھر کی ریت کے مقابلے میں ایک ذرہ۔(الشفاء،ج 1،ص67)
بعض عُلَما سے منقول ہے کہ عقل کے کل سو(100) حصّے ہیں جن میں سے99حصّے سرکارِ نامدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو عطا ہوئے جبکہ ایک حصّہ تمام
مومنوں کو ملا۔ خَاتِمُ الْمُحَقِّقِین حضرت سیّدُنا شیخ عبدُالحق محدث دہلوی رحمۃ
اللہ علیہ اس قول کو نقل کرکے
فرماتے ہیں:اگر یہ کہا جائے کہ عقل کے کل
ہزار حصّے ہیں جن میں سے999رحمتِ عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلَّمکو عطا ہوئے اور ایک حصّہ تمام لوگوں کو، تو اس کی بھی
گنجائش ہے کیونکہ جب رسولِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے لئے بےانتہا کمالات ثابت ہیں تو پھر
جو کچھ کہیں درست ہے۔(مدارج النبو ۃ،ج1،ص36)
کوئی
کیا جانے کہ کیا ہو
عقلِ
عالَم سے وَرا ہو
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ماہنامہ
فیضان مدینہ باب المدینہ کراچی
[1] ۔۔۔ تفصیل کے لئے
فتاویٰ رضویہ جلد30میں موجود امامِ اہلِ سنّت کے رسالے ”تَجَلِّی
الْیَقِیْن بِاَنَّ نَبِیَّنَا سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن“ کا مطالعہ فرمائیے۔
[2] ۔۔۔ تفصیل جاننے کے لئے فتاویٰ رضویہ
جلد14میں موجود رسالے ”اَلْمُبِیْن خَتْمُ النَّبِبِّیْن“ کا مطالعہ فرمائیے۔
[3] ۔۔۔ اللہ ایک ہے اس کا کوئی شریک
نہیں۔
[4] ۔۔۔ آپ جہاں بھی رہیں گے آپ کی مدد کی جائے گی۔
Comments