آنے کا انتظار یا جانے کا

کتاب زندگی

آنے کا انتظار یا جانے کا!

*مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2024ء

اللہ کریم نے ہمیں عقل و شعور سے نوازا ہے۔ ہمیں اسے استعمال میں لا کر اپنے دینی و دنیاوی، سماجی و معاشرتی معاملات کو اچھےانداز میں چلانا چاہیے۔ انسانی نفسیات و کیفیات کو پہچاننا چاہیے، خاص طور پر جب ہم کسی سے ملنے جائیں۔ کچھ لوگ ہمارے آنے کا انتظار کرتے ہیں،لیکن جب ہم ملنے چلے جائیں تو ایک ٹائم آتا ہے کہ وہ ہمارے جانے کاانتظار کرتے ہیں۔

وہ شخص جسے ہم ملنے پہنچے، اس نے بڑی ہی چاہت بھرے انداز اور خوشی کا اظہار کرتے ہوئے ہمیں ویلکم کیا ”آئیے آئیےجناب!ارے یار!آپ کے آنے سے تو دل خوش ہوگیا، مرحبا، ویلکم۔ الغرض بڑا ہی پرتپاک استقبال کیا اور ہمارے آنے پر خوش ہوا۔

ہم بھی خوش ہوئے، خوشی خوشی ملے اور بیٹھ گئے، لیکن بیٹھے بیٹھے ایسا وقت بھی آتا ہے کہ وہ ہمارے جانے کا انتظار کرتا ہے، كيونكہ جو آپ کا انتظار کررہا تھا ضروری نہیں کہ وہ سارا وقت آپ ہی کے لیے نکال کر بیٹھا ہے، ممکن ہے کہ اس نے 5 یا 10 یا 20 منٹ آپ کے لیے رکھے ہوں، اب وہ منتظر ہو کہ آپ جائیں تو وہ اپنا کام کرے۔

یہ وقت کب آتاہے اس کی شناخت ہمارے ذمے ہے،اگر وہ شخص ہم سے بات کرتے وقت توجہ نہیں کر رہا،تو اس کا مطلب ہے کہ کچھ نہ کچھ معاملہ ہے،دال میں کچھ کالا ہے،اور اگر وہ بار بار گھڑی دیکھ رہا ہے یا ادھر ادھر دیکھ رہاہے،یا گھڑی دیکھنے کے بعدکہتا ہے کہ ہاں2بج گئے ہیں وغیرہ وغیرہ، اس طرح وہ اگر کوئی ریفرنس دےکہ آپ کے جانے کے بعد مجھے 2بجے وہاں پہنچنا ہے،بس میں بھی نکلنے ہی والا ہوں ابھی تھوڑی دیر میں،آپ کس راستے سے جائیں گے؟

اور آپ کہیں کہ اب نہیں،بیٹھو جی ابھی تو محفل گرم ہوئی ہے،ابھی تو بات چیت کریں گے،تویہ سر پہ سوار ہونے والی بات ہے۔

 یہ بھی ذہن میں رہے کہ سبھی ہمارے آنے کا انتظار نہیں کرتے بلکہ بعض صرف جانے ہی کا انتظار کرتے ہیں، اس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جنہیں ہم اطلاع دیئے بغیر ملنے پہنچیں اور زبردستی ان کے سر پہ سوار ہوجائیں۔ وہ دل میں سوچتے ہیں کہ ارے یار!یہ کہاں سے آگئے،یہ رونگ ٹائم میں آگئے،کیا کروں؟ اب میں کیسے بولوں ان کوکہ آپ نہ آتے ابھی وغیرہ وغیرہ۔وہ بولیں گے تو آپ ناراض ہوجائیں گے۔

ہمارا کسی کے ہاں جانا مختلف مقاصد کے تحت ہوتاہے اسی طرح سامنے والے کی بھی مختلف کیفیات ہوتی ہیں۔ کوئی طالبِ علم ہے تو ممکن ہے کہ اسے پڑھنے اور اسباق کی تیاری کرنے کی مصروفیات درپیش ہوں۔ کوئی عالم دین ہے تو ممکن ہے کہ ان کے مطالعہ اور دیگر علمی مصروفیات کا وقت ہو، کوئی ڈاکٹر ہے تو اس کے کلینک جانے یا کسی مریض کو چیک کرنے وغیرہ کی مصروفیات ہوں، یا کوئی کاروباری شخص ہے تو اس کی اہم مصروفیات ہوں۔

ایک بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو مریض کی عیادت کے لیے جاتے ہیں۔ بیمار کی عیادت کرنا کارِ ثواب ہے لیکن بعض اوقات عیادت کرنے والے مریض کے لئے راحت کے بجائے زحمت کا باعث بن جاتے ہیں۔ زحمت کی ان وجوہات میں سے ایک  وجہ، مریض کے پاس ہی بیٹھے رہنا، بھی ہے، حالانکہ مریض کو آرام کی ضرورت ہوتی ہے۔

بہر حال عیادت کرنے میں مریض کی کیفیت کا خیال رکھنا ضروری ہے اور اگر یہ محسوس ہو کہ ہماری موجودگی مریض کے لئے تکلیف کا سبب ہے تو جلد وہاں سے روانہ ہوجانا چاہیے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: اَفْضَلُ الْعِیَادَۃِ سُرْعَۃُ الْقِیَام بہترین عیادت جلد اُٹھ جانا ہے۔([1])

یہ اس صورت میں ہے جب بیمار کو اس کے بیٹھنے سے تکلیف ہو۔([2]) جبکہ اگر یہ گمان ہوکہ مریض اس شخص کے زیادہ بیٹھنے کو ترجیح دیتا ہے، مثلاً : وہ اس کا دوست یا کوئی بُزُرگ ہے یا وہ اس میں اپنی مصلحت سمجھتا ہے،اسی طرح کوئی اور فائدہ ہو تو اس وقت مریض کے پاس زیادہ دیر بیٹھنے میں کوئی حرج نہیں۔([3])

سبق آموز حکایتیں

ایک شخص مریض کی عیاد ت کو گیا اور کافی دیر بیٹھا رہاتو مریض نے کہا: لوگوں کی بھیڑ کی وجہ سے ہمیں تکلیف ہوئی ہے، وہ آدمی کہنے لگا،میں اٹھ کر دروازہ بند کر دوں ؟ مریض نے کہا: ہاں!لیکن باہر سے۔

ایک شخص کسی بیمار کے پاس بہت دیر بیٹھا پھر بولا کہ تمہیں تکلیف کیا ہے ؟ بیمار نے کہا: تمہارے بیٹھنے کی۔

چندلوگ ایک مریض کے پاس آئے اور کافی دیر تک بیٹھے رہے اور کہنے لگے: ہمیں وصیت کیجئے! مریض نے کہا: میں تمہیں اس بات کی وصیت کرتا ہوں کہ جب تم مریض کی عیادت کرنے جاؤ تو اس کے پاس زیادہ دیر مت بیٹھو۔([4])

حضرتِ سیِّدُنا شعبی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بے وقوف لوگوں کا مریض کی عیادت کرنا اس کے گھر والوں پر اس کے مرض سے بھی زیادہ بھاری ہوتا ہے، کیونکہ وہ بےوقت آتے ہیں اور دیر تک بیٹھے رہتے ہیں۔([5])

خلاصہ یہ کہ مریض کے پاس جائیں یا تندرست کے پاس بہرصورت ایسے مواقع اور کیفیات و حالات کی شناخت ہمیں خود کرنی ہوگی کہ کسی کے پاس کتنی دیر بیٹھنا چاہیے اور کسی کے ہاں کب جانا چاہئے، اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہماری عزت و وقار میں کمی نہیں آئے گی، سامنے والے کی نظر میں ہماری عزّت بڑھے گی۔ اسے آزمائیے اور اپنی زندگی کو بہتر بنائیے۔

صورت اور سیرت

صورت اچھی ہو تو ضروری نہیں کہ اس کی سیرت بھی اچھی ہوگی، ہم بعض اوقات کسی کی خوب صورتی دیکھ کر بقیہ بہت ساری چیزیں اس کے لئے مان لیتے ہیں کہ یہ شخص اگر خوب صورت ہے تو بااخلاق بھی ہوگا، ایمان دار بھی ہوگا، یہ نرم مزاج بھی ہوگا، یہ وعدے کا پابند بھی ہوگا۔ یادرکھیے! اس میں ہم ٹھو کر کھا سکتے ہیں، ہمیں غلطی لگ سکتی ہے، وہ اس طرح کہ ہمیں جب واسطہ پڑے گا تو کھال سے نہیں پڑے گا حال سے پڑے گا۔

 شیخ سعدی نے یہی فرمایا کہ واسطہ چمڑی سے نہیں، شخصیت سے پڑتا ہے۔ کسی کی کھال اگر اچھی ہے تو ضروری نہیں کہ اس کا حال بھی اچھا ہو، اس لئے ہمیں اس چیز کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے محض کسی کی خوب صورتی دیکھ کر دھوکا نہیں کھانا چاہئے اور اس کے برعکس اگر کوئی خوب صورت نہیں ہے لیکن خوب صورت نہ ہوتے ہوئے بھی وہ خوب سیرت ہوسکتا ہے اس کے اخلاق ایسے اچھے ہوتے ہیں کہ رشک آئے بہرحال فیصلہ تب ہوگا، جب ہمارا اس سے واسطہ پڑے گا، جب ہمارا اس کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہوگا۔ اس لئے یاد رکھئے کہ صورت اچھی ہو تو ضروری نہیں کہ سیرت بھی اچھی ہو۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* استاذ المدرسین، مرکزی جامعۃ المدینہ فیضانِ مدینہ کراچی



([1])شعب الایمان،6/542، حدیث:9221

([2])مراٰۃ المناجیح،2/433

([3])مرقاۃ المفاتیح،4/60،تحت الحدیث:1591

([4])مرقاۃ المفاتیح،4/60،تحت الحدیث:1591

([5])حلیۃ الاولیاء،4/348، رقم:5817


Share