بچت مگر کس چیز کی؟

درس ِکتاب زندگی

بچت مگر کس چیز کی؟

*مولاناابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ اگست 2024

بچت (Saving) کا لفظ آپ نے بہت مرتبہ سنا ہوگا عموماً بچت کا تعلق صرف روپے پیسے کے ساتھ سمجھا جاتا ہے کہ مال کی بچت، رقم کی بچت، روپے پیسے کی بچت! پھر مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ بچت کرنے کے بعد جو رقم بچے گی وہ ہماری ضروریات اور سہولیات میں استعمال ہوگی۔ اس طرح کی بچت کے سینکڑوں طریقے ہیں جوبُکس، وی لاگز، بلاگز، موٹیویشنل لیکچرز کی صورت میں سوشل میڈیا اور میڈیا میں بکھرے پڑے ہیں۔ ذاتی تجربات اور تجربہ کار لوگوں سے میل ملاقات بھی انسان کو مالی بچت کے طریقے (Ways to save money) سکھادیتی ہے، یہ الگ بات ہے کہ وہ ان طریقوں پر عمل کرتا ہے یا نہیں!

بچت کے حیران کردینے والے طریقے

 بعض لوگ تو بچت کے ایسے حیران کن طریقے استعمال کرتے ہیں کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے جیسے پُل یا پہاڑی بلندی سے اُترتے وقت گاڑی یا رکشہ وغیرہ کا انجن بند کردینا تاکہ فیول کم خرچ ہو اور کچھ پیسے بچ جائیں، پریشر کُکر میں کھانا بنانا کہ جلدی بنے گا اور گیس کم خرچ ہوگی جس سے بل کم آئے گا، بجلی کی استری کے بجائے اسٹیل وغیرہ کی پلیٹ گیس کے چولہے پر گرم کر کے یا گیس والی استری سے کپڑے پریس کرلینا کہ گیس کا بل بجلی کے مقابلے میں کافی کم ہوتا ہے یوں کچھ رقم بچ جائے گی۔اس طرح کے انوکھے معاملات (Strange cases) شاید آپ کے اردگرد بھی ہوتے ہوں۔

بہرحال! روپے پیسے کی بچت (جس سے شریعت منع نہ کرتی ہو اس) میں حرج نہیں بلکہ اچھی نیت ہوگی تو اس پر ثواب ملے گا، اِن شآءَ اللہ۔ لیکن بچت کی یہی ایک قسم نہیں بلکہ اور بھی اقسام ہیں جیسے توانائی کی بچت، صحت کی بچت،تعلقات کی بچت، عزت ووقار کی بچت !مگر اس تحریر میں مجھے اس بچت پر بات کرنی ہے جو بہت ہی ضروری ہے لیکن اس کی طرف بہت ہی کم لوگوں کی توجہ ہوتی ہے !اور وہ ہے ’’وقت کی بچت ‘‘!

وقت مال سے زیادہ قیمتی ہے

وقت اور مال کا تقابل (Comparison) کیا جائے تو وقت کئی اعتبارات سے مال پر فوقیت (Priority) رکھتا ہے جیسےمال کسی کے پاس کم ہوتا ہے کسی کے پاس زیادہ جبکہ وقت کے 24 گھنٹے ہر شخص کو برابر ملتے ہیں،خرچ یا ضائع ہونے یا ڈکیٹی وغیرہ میں مال چھن جانے کے بعد دوبارہ بھی حاصل کیا جاسکتا ہے جب کہ وقت ایک مرتبہ خرچ یا ضائع ہوجانے کے بعد اس کا ایک سیکنڈ یا منٹ کسی بھی قیمت پردوبارہ نہیں ملتا۔ غور کیجئے! جب ہم کم قیمتی چیز کی بچت کے لئے بہت زیادہ کوششیں (Efforts) کرتے ہیں تواس سے قیمتی شے وقت کی بچت کے لئے اس سے کہیں زیادہ کوشش کرنی چاہئے تاکہ ہماری دنیا اور آخرت کے معاملات سنور جائیں!ہمارے پیارے رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ایک فرمان سے اس حوالے سے راہنمائی لی جاسکتی ہے، چنانچہ

پانچ کی پانچ سے پہلے قدر کرو

رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ایک شخص کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: پانچ (چیزوں) کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو: (1)بڑھاپے سے پہلے جوانی کو(2)بیماری سے پہلے تندُرُستی کو (3)فقیری سے پہلے اَمیری کو(4)مصروفیّت سے پہلے فرصَت کو اور(5)موت سے پہلے زندَگی کو۔ ([i])

علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ حدیث شریف کے اس حصے ”فرصت کو مشغولیت سے پہلے غنیمت جانو“ کے تحت فرماتے ہیں کہ مطلب یہ ہے کہ اس دنیاوی فرصت کو قیامت کی ان ہولناکیوں میں پڑنے سے پہلے ہی غنیمت (Seize) سمجھو جن کی پہلی منزل قبر ہے۔([ii])

ہمارا حیران کن رویہ

ہماری اکثریت دو قسم کے نقصانات میں حیران کردینے والا رویہ(Attitude) ظاہر کرتی ہے؛ایک یہ کہ اگر کوئی چور ہمارا مال چرالے، ڈکیٹ موبائل،بائیک یا گاڑی اور پیسے چھین لے، دھوکے باز فراڈ سے ہماری رقم ہتھیا لے، قبضہ گروپ ہماری زمین یا مکان پر قبضہ کرلے تو ہمیں بڑا صدمہ ہوتا ہے اور ان لوگوں کو ہم ہرگز ہرگز ہرگز اپنا دوست، خیر خواہ اور ہمدرد نہیں سمجھتے جبکہ اس کے برعکس (Opposite) اگر کوئی فالتو اور بےکار قسم کا شخص ہمارا وقت چھین لے  یا ضائع کردے کہ ہم سے خوامخواہ کی بحثیں کرے، ملاقات کو مختصر رکھنے کے بجائے جانے کا نام نہ لے، ہمیں فضول مجلس (Sitting) میں بٹھائے رکھے تو ہمیں اس کا کوئی صدمہ نہیں ہوتا بلکہ روزانہ کی بنیاد پر وقت ضائع کرنے والے ہمارے دوستوں میں شامل ہوتے ہیں۔ حالانکہ مال کا نقصان جلد یا دیر سے پورا ہوسکتا ہے لیکن جو وقت ایک مرتبہ چلا گیا وہ واپس نہیں آتا۔

وقت کی بچت کہاں سے سیکھیں؟

بچت کا بنیادی اصول (Basic principle)یہ ہے کہ اس چیز کو ضائع ہونے سے بچایا جائے اور سوچ سمجھ کر خرچ کیا جائے۔ اس کے لئے نہ کرنے کے کاموں اورفضول دوستیوں سے پرہیز لازم ہے کیونکہ جو اپنے وقت کی قدر نہیں کرتا وہ دوسروں کے وقت کی کیا قدر کرے گا؟یہ حقیقت بھی ہمارے پیشِ نظر ہونی چاہئے کہ کوئی دوسرا ہمارے وقت کو بچانے نہیں آئے گا ہمیں خود ہی کچھ کرنا ہوگا۔ اب رہا یہ سوال کہ وقت کی بچت کا تفصیلی طریقہ کہاں سے سیکھیں؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ وقت کی انمول دولت بچانے کے طریقے بھی انہی ذرائع (Sources) سے سیکھے جاسکتے ہیں جن سے مال کی بچت کے طریقے سیکھتے ہیں یعنی بُکس، وی لاگز، بلاگز، موٹیویشنل لیکچرز، ذاتی تجربات اور تجربہ کار لوگوں سے مشورہ کرنا۔

ہمارے اسلاف (دینی بزرگ[Pious predecessors]) وقت کے حوالے سے کتنے حساس(Sensitive) تھے اس کی صرف دو جھلکیاں دیکھئے؛ چنانچہ

قراٰنِ کریم کی پچاس آیتوں کی تلاوت

حضرت داؤد طائی رحمۃُ اللہِ علیہ روٹی پانی میں بھگو کر کھا لیتے تھے، اس کی وجہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”جتنا وقت لقمے بنانے میں صرف ہوتا ہے،اتنی دیر میں قراٰنِ کریم کی پچاس آیتیں پڑھ لیتا ہوں۔“([iii])

40 سال سے روٹی نہیں کھائی

حضرتِ شیخ سری سقطی رحمۃُ اللہِ علیہ کہتے ہیں: میں نے شیخ علی بن ابراہیم جرجانی رحمۃُ اللہِ علیہ کے پاس پِسے ہوئے ستو (Sattu) دیکھے، میں نے پوچھا: آپ ستو کے علاوہ اور کچھ کیوں نہیں کھاتے؟ انہوں نے جواب دیا: میں نے کھانا چبانے اور ستو پینے میں 70تسبیحات کا اندازہ لگایا ہے، چالیس سال ہوئے میں نے روٹی کھائی ہی نہیں تاکہ ان تسبیحات کا وقت ضائع نہ ہو۔([iv])

اللہ پاک ہمیں بھی وقت کی ایسی قدر اور اس کی بچت کا شعور عطا فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

*(چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ، کراچی)



([i])شعب الایمان، 7/263، حدیث: 10248

([ii])التیسیر شرح جامع الصغیر، 1/177

([iii])تذکرۃ الاولیاء، 1/201-احیاء العلوم ،5/143

([iv])مکاشفۃ القلوب،ص37


Share