
درس کتابِ زندگی
سوشل میڈیا پر بدنام کرنا
(Defamation on social media)
*مولانا ابورجب محمد آصف عطاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جون 2025ء
آج کے ڈیجیٹل دَور میں سوشل میڈیا کا جادو سَر چڑھ کر بول رہا ہے۔ نئے نئے پلیٹ فارمز جدید فیچرز کے ساتھ متعارف ہو رہے ہیں جن تک رسائی ہر خاص و عام کے لئے آسان ہے، کوئی بھی ان پر اپنا اکاؤنٹ بنا کر اپنی مرضی کا مواد ڈال سکتا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال مثبت بھی ہوتا ہے اور منفی بھی، چنانچِہ سوشل میڈیا حیرت ناک فوائد کے ساتھ خوفناک نقصانات بھی پہنچاتا ہے۔ سوشل میڈیا جہاں خبریں عام کرتا ہے تو اَفواہیں (Rumors) بھی اس کے ذریعے پھیلتی ہیں۔ اس کے ذریعے لوگوں کو شُہرت بھی ملتی ہے اور ذلّت بھی۔ اگر کوئی کسی کو سوشل میڈیا پر بدنام کرنے کی ٹھان لے تو اسے روکنا بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ وہ سچ جھوٹ کی پرواہ کئے بغیر اپنے شرمناک مقصد (Shameful Purpose ) کو پورا کرنے میں لگ جاتا ہے۔ سوشل میڈیا پر رُسوا کرنے کے واقعات آئے روز بڑھتے جارہے ہیں۔کسی کو بدنام و رُسوا کرنے والوں کے کئی طرح کے مقاصد ہوسکتے ہیں جیسے سَستی شُہرت حاصل کرنا، اپنے پیج کے ویوز بڑھانا، سیاسی، مذہبی یا ذاتی دشمنی نکالنا، حسد یا بغض کی وجہ سے خود کو شیطانی تسکین دینا، بدلہ لینا، دباؤ ڈال کر ناجائز مطالبات منوانا۔ ان بُرے مقاصد کو پورا کرنے کے لئے بے بنیاد خبریں اور اَفواہیں پھیلائی جاتی ہیں، جھوٹے الزامات پر مشتمل فیک آڈیوز، وڈیوز اور تصویریں ٹمپرنگ کرکے شیئر کی جاتی ہیں، اس کی خاندانی زندگی کے راز کھولے جاتے ہیں اور کمزوریاں لوگوں کو بتائی جاتی ہیں۔ کسی کو بدنام و رُسوا کرنے والے کو ذرا پرواہ نہیں ہوتی کہ اس کی حرکتوں سے بدنام ہونے والوں کو کتنا بڑا سماجی، معاشی اور اخلاقی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ متأَثِّرہ شخص ذِہنی دباؤ، پریشانی اور مایوسی کا شکار ہو سکتا ہے، جو بعض اوقات اسے خودکشی جیسے انتہائی اقدام تک لے جا سکتا ہے۔ بدنامی کی وجہ سے لوگ خود کو دوسروں سے الگ تھلگ محسوس کرنے لگتے ہیں، ان کے معاشرتی تعلّقات کمزور ہو جاتے ہیں، طلاق کی وجہ سے ان کا گھر بھی ٹوٹ سکتا ہے۔ اگر کوئی شخص یا کمپنی اپنی پیشہ ورانہ زندگی میں بدنام ہو جائے تو اس کے کیریئر پر منفی اَثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔اس طرح کے متعدَّد واقعات پاکستان میں رپورٹ ہوئے ہیں ٭کراچی میں 15سال کے نوجوان نے اکتوبر 2024ء میں ہراسانی اور تشدُّد کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہونے کے بعد خودکشی کر لی ٭اکتوبر 2022ء میں ایک خاتون نے اپنے رشتہ داروں کی جانب سے ان کی تصاویر کو ایڈٹ کر کے سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کے بعد زہر کھا کر خودکشی کر لی۔(یاد رہے کہ خودکشی حرام ہے)
خطرناک وار
کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کسی صحیحُ العقیدہ مذہبی شخصیت یا جماعت یا تنظیم کے پیچھے پڑے رہتے ہیں تاکہ لوگوں کے دلوں سے اس کی محبَّت کم کرسکیں، مسلمانوں کو جو اس تحریک سے دینی نَفْع پہنچتا ہے وہ اس سے محروم ہوجائیں لیکن اَلحمدُ لِلّٰہ خلوص کے ساتھ دینِ اسلام کی حقیقی خدمت کرنے والی تحریکوں کو ایسے شیطانی وار سے کچھ فرق نہیں پڑتا۔ ان سوشل میڈیا ایکٹوسٹ کی ایک تعداد لوگوں کو اس دھوکے میں رکھتی ہے کہ ہم تو فلاں کو سمجھا رہے ہیں حالانکہ وہ تہمتیں لگا کر، عیب اُچھال کر اور طرح طرح کے جھوٹے الزامات لگا کر کسی کو سوشل میڈیا پر ٹرولنگ کے ذریعے بدنام کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر یہ سمجھانے میں مخلص ہوتے تو وہ طریقہ استعمال کرتے جو اسلام نے سکھایا ہے نہ کہ مائیک اور کیمرہ لے کر سوشل میڈیا پر شروع ہوجاتے۔
سمجھانے کا قراٰنی و نبوی اُسلوب
(اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَالْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ)
ترجَمۂ کنزُ الایمان: اپنے رب کی راہ کی طرف بلاؤ پکّی تدبیر اور اچّھی نصیحت سے۔([1])
رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو جب کسی کی بات پہنچتی جو ناگوار گُزرتی تو اُس کا پردہ رکھتے ہوئے احسن انداز میں اصلاح کرتے ہوئے ارشاد فرماتے: مَا بَالُ اَقْوَامٍ یَقُوْلُوْنَ کَذَا وَکَذَا یعنی لوگوں کو کیا ہو گیاجو ایسی بات کہتے ہیں۔([2])
علّامہ عبدالرّءوف مُناوی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں:یعنی نبیِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہ کلام اشارۃً فرماتے جس میں تکلیف یا اِیذا رسانی ہو اور جس کو صراحت سے بیان کرنا پسند نہ کیا جاتا ہو۔([3])
براہِ راست سمجھانے کا فائدہ
حضرتِ بی بی اُمِّ دَرداء رضی اللہُ عنہا فرماتی ہیں: جس کسی نے اپنے بھائی کو چپکے سے نصیحت کی اُس نے اُسے زینت بخشی اور جس نے اِعلانیہ نصیحت کی تو اُسے عیب لگایا۔([4])
کسی کی پوشیدہ بُرائی دُوسروں کے سامنے بیان کرنے کی اجازت صِرف اسی صورت میں ہے کہ جب وہ بُرائی دُوسروں کے حق میں نُقصان دہ ہو اور اگر ایسا نہیں تو دُوسروں کو بتانے اور سب کی نظروں میں ایک مُسلمان کو ذلیل و رُسوا کرنے کے بجائے تنہائی میں نرمی کے ساتھ اُس کی اِصلاح کی کوشش کی جائے کیونکہ اگر سب کے سامنے یا سوشل میڈیا پر جارحانہ لہجے میں آپ کسی کی اِصلاح کی کوشش کریں گے تو عین ممکن ہے کہ وہ ضِدّی بن جائے اور اپنی غَلَطی تسلیم کرنے کے بجائے اُلٹا آپ کو رُسوا کردے لہٰذا حتّی الْاِمکان تنہائی میں نصیحت کی جائے کہ یہ نہایت مؤثِّر ثابت ہوتی ہے۔
تنہائی میں نصیحت زینت ہے
حضرت امام شافعی رحمۃُ اللہِ علیہ نے فرمایا: جس نے اپنے مُسلمان بھائی کو تنہائی میں سمجھایا اُس نے اُسے نصیحت کی اور زینت بخشی اور جس نے سب کے سامنے سمجھایا اُس نے اُسے رُسوا اور بدنام کِیا۔ حضرت مِسْعَر بن کِدام رحمۃُ اللہِ علیہ سے پوچھا گیا: کیا آپ اُس شخص کو پسند کرتے ہیں جو آپ کو آپ کے عیبوں پر خبردار کرے؟ فرمایا: اگر تنہائی میں نصیحت کرے تو پسند ہے اور اگر سرِ عام سمجھائے تو نہیں۔([5])
سوشل میڈیا پر بدنام و رُسوا کرنے کے سنگین معاملے میں ہماری بھی ذمّہ داری بنتی ہے کہ سوشل میڈیا کو مثبت اور تعمیری مقاصد کے لئے استعمال کریں۔ اگر ہم اس شخص کو جانتے ہیں جو کسی کو سوشل میڈیا پر بدنام کر رہا ہے تو اسے سمجھائیں کہ اس کی دنیا و آخرت دونوں میں گرفت ہوسکتی ہے اور اگر ہمارے جاننے والوں میں کوئی شخص آن لائن بدنامی کا شکار ہو تو اسے حوصلہ دیں اور اس کی مدد کریں تاکہ وہ اس صدمے سے نکل سکے۔
کر بھلا ہوبھلا!!!
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments