
درس کتاب زندگی
زندگی دَرْد سے عبارَت ہے
*مولانا محمد اُحد رضاعطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
غالباً را ت کا ایک بج رہا تھا،اچانک ایک کمرے سے گوشت جلنے کی بُو آنے لگی۔ گیلری میں مَٹَر گَشت اور خوش گپیوں میں مصروف دو افراد بطورِ تجسس اس کمرے کی جانب بڑھے، جب باربار کھٹکھٹانے پر بھی کوئی جواب نہ آیا تو کسی عجیب خیال نے انہیں لاک توڑنے پر مجبور کیا، دروازہ کھلا تو اندر کے درد ناک منظر نے پتھریلی آنکھوں سے بھی چشمے جاری کردئیے۔ایک نیم معذور نوجوان بیڈ پر سو رہا تھا مگر جلتا ہوا ہیٹر گرنے کے سبب اس کی ٹانگیں اور کمبل آگ میں سُلگ رہے تھے۔ بیچارے کی ٹانگیں کسی حد تک کام تو کرتی تھیں مگر ایک سانحہ اس کا اَعصابی نِظام سُن کرگیا تھا، جس کے سبب جسم کے بعض حصے درد کو محسوس نہیں کرسکتے تھے۔
یہ سچا ”درد ناک “واقعہ بتاتا ہے کہ درد خطرے کا سائرن ہے، جو انسان کو ابتداءً ہی خطرے سے خبر دار کرکے ہوشیار کردیتا ہے اور پانی سَر سے گزرجائے اس سے قبل اس نقصان کی روک تھام کاموقع دیتا ہے۔یوں ”درد“ زندگی کے لئے ایک لحاظ سے نعمت ٹھہرا کہ معمولی درد و تکلیف کسی بڑی تکلیف سے بچانے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ اس واقعہ سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ جہاں شعور و احساس ہوگا،وہاں درد و تکلیف بھی پائے جائیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ درد کُش (Painkillers) ادویات عموماً شعور کُش بھی ہوتی ہیں، بعض آپریشنز مکمل بےہوشی کے عالم میں ہی کئے جاتے ہیں تاکہ کسی بھی قسم کی جراحت (چیرپھاڑ،surgery) کا اثر،درد و تکلیف کی صورت میں جسم کو نہ پہنچے۔
صبر کریں اور اجر پائیں: جب تک زندگی ہے، دکھ درد، پریشانی اور مصیبتیں آتی رہیں گی سو ان مشکلات میں صبر کا دامن ہاتھ سےنہ چھوٹنے پائے اور سُکھ و چین کی گھڑیو ں میں زبان شکر سے تَر رہے۔ حضرتِ عبدالملک بن اَبجر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:لوگوں کو خوشحالی عطاکی جاتی ہے تاکہ دیکھا جائے کہ شکر کیسے ادا کرتےہیں یا پھر مصیبت میں گرفتار کیا جاتا ہے تاکہ جانچ ہو کہ اس پر کیسےصبر کرتے ہیں۔ ([1]) اور کثیر احادیثِ مبارکہ میں صبر کرنے پر اجر و ثواب کی خوشخبریاں آئیں، چنانچہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: مسلمان کو کوئی تکلیف، فکر، بیماری، ملال، اذیت اور کوئی غم نہیں پہنچتا یہاں تک کہ کانٹا جو اسے چُبھے مگر اللہ کریم ان کے سبب اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔([2])عالمِ کبیر علامہ عبد الرءوف مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ نے پریشان حالوں کی ڈھارس بندھانے والی، معنی خىز بات ارشاد فرمائی: كسی انسان کا دنیا میں مصیبت اور بلاؤں میں مبتلا ہونا اس بات کی علامت ہے کہ اللہ پاک اس شخص سے بھلائی کا ارادہ رکھتا ہے۔ جبھی اسے گناہوں کی سزا دنیا ہی میں (کسی مصیبت وغیرہ کے ذریعہ ) دے دی اور اسے آخرت پر مؤخر نہ کیا کہ وہاں کی سزا دائمی ہے۔([3])
حکایت:حضرتِ فتح الموصلی کی زوجہ رحمۃ اللہ علیہما کا پاؤں پھسلا، جس کے سبب ناخن ٹوٹ گیا مگر وہ مسکرانے لگیں۔ پوچھا گیا: کیا آپ کو درد نہیں ہورہا؟ فرمایا: اس درد پر صبر کرنے کے عوض ملنے والے ثواب نے میرے درد کی تلخی دور کردی ہے۔([4])
صبر بہترین زندگی کی ضمانت ہے:امیر المؤمنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا: ”وَجَدْنَا خَيْرَ عَيْشِنَا بِالصَّبْرِ “یعنی ہم نے اپنی بہترین زندگی صبر کے ساتھ پائی ہے۔([5])
زندگی میں پُرسکون رہنے کے نسخے:پیرمہرعلی شاہ چشتی گیلانی رحمۃُ اللہِ علیہ کا ہمت افزا ارشاد: انسان حوادث کا محل ہے۔ اسے چاہئے کہ مایوسی اورگھبراہٹ کو عادت نہ بنائے۔ جلد باز آدمی یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی مرادیں فوراًپوری ہوجائیں لیکن جس طرح پھول اپنےموسم ہی میں کِھلتے ہیں اسی طرح مرادیں بھی اپناوقت آنےپر ہی بَر آتی (یعنی پوری ہوتی) ہیں۔([6])امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ آیتِ مبارکہ
)وَكَانَ الْاِنْسَانُ عَجُوْلًا(۱۱)(
ترجَمۂ کنزالایمان: اور آدمی بڑا جلدباز ہے۔([7])
ذکر کرنے کے بعد فرماتے ہیں:انسان اپنے قدموں کے نیچے دیکھتا ہے آگے نظر نہیں کرتا! یہاں (دنیا) کے آرام کو آرام سمجھتا ہے اور یہاں کی تکلیف کو تکلیف حالانکہ بہت سے آرام یہاں کے وہاں (آخرت) کی تکلیف ہیں اور بہت سی یہاں کی تکلیف وہا ں کے آرام ہیں۔([8])
اللہ پاک ہمیں اپنا شکر گزار اور صابر بندہ بنائے، مصیبت میں زبان بلکہ کسی بھی عضو و حرکت سے گلے شکوے ظاہر نہ ہوں، خوشیوں اور نعمتوں کی فراوانی میں اپنی شکر گزاری کی توفیق عطا فرمائے۔ اس کی بارگاہ میں ہم دنیا اور آخرت کی بھلائیوں اور راحتوں کاسوال کرتے ہیں۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ہے صبر تو خزانۂ فردوس بھائىو!
عاشق کے لب پہ شکوہ کبھى بھى نہ آسکے([9])
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* شعبہ اردو لغت، المدینۃ العلمیہ
Comments