
درس کتاب زندگی
زندگی کیسے بدلے گی ؟
(How will life change ?)
*مولانا ابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
بہت سےلوگوں کا لائف اسٹائل ایساہوتا ہے جو جلد یا بدیر انہیں نقصان پہنچائے گا۔اس لئے اسے تبدیل کرنا بہت ضروری ہوتا ہے، لیکن اس کا حقیقی شعور اور ادراک کم ہی لوگوں کو ہوتا ہے کہ ”زندگی کیسے بدلے گی؟“اس مضمون میں اسی سوال کا جواب دینےکی کوشش کی گئی ہے کہ زندگی میں مثبت تبدیلی کا سفر کس طرح شروع کیا جاسکتا ہے۔
(1)تبدیلی سے خوفزدہ نہ ہوں
بعض لوگوں کا المیہ(Tragedy) یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ تبدیلی سے خوف اور تشویش میں مبتلا ہوجاتےہیں۔ ایسے لوگ اپنے کمفرٹ زون سےنکلنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ انہیں اپنی بُری عادت بدلنی پڑے،شرمناک معمولات تبدیل کرنا پڑیں، بُرے دوستوں کی صحبت چھوڑنی پڑے یا شیطانی لذت پر مشتمل گناہوں کو چھوڑنا پڑے تو وہ سمجھتے ہیں کہ زندگی بالکل بے رونق (Dull) ہوجائے گی،میرے شب وروز کیسے گزریں گے؟ کہیں آپ بھی تو ایسے لوگوں میں شامل نہیں؟ اگر ہیں تو یہ غور کر لیجئے کہ آپ کی زندگی کئی تبدیلیوں کے بعد موجود شکل میں ڈھلی ہے۔آپ جس شیطانی لذت کو زندگی کی رونق قرار دے رہے ہیں،ایک وقت تھا کہ آپ اس گناہ مثلاً فلمیں ڈرامے دیکھنے یا بدنگاہی میں مبتلا نہیں تھے تو بھی زندگی بارونق ہی تھی۔اس لئے خود کو تبدیل کرنے سے خوفزدہ نہ ہوں۔ ایک شخص جسے دال بڑی پسند تھی اور وہ کسی دوسرے کھانے حتی کہ گوشت کو بھی خاطر میں نہ لاتا تھا۔ اس کا دوست اسے چکن کھانے کی دعوت دیتا لیکن وہ یہ کہہ کر اس دعوت کو ٹھکرا دیتا کہ اس دال میں جو لذت ہے کسی اور کھانے میں کہاں؟ آخر کار ایک دن جب اس کے دوست نے اسے چکن کھانے کی دعوت دی تو اس نے سوچا کہ آج چکن بھی کھاکر دیکھ لیتے ہیں کہ اس کا ذائقہ کیسا ہے اور چکن کھانے لگا۔ جب اس نے پہلا لقمہ منہ میں رکھا تو اسے اتنی لذت محسوس ہوئی کہ اپنی پسندیدہ دال کو بھول گیا اور کہنے لگا : ہٹاؤ اس دال کو، اب میں چکن ہی کھایا کروں گا۔ بلاتشبیہ جب تک کوئی شخص گناہوں کی لذت میں مبتلا رہتا ہے،اسے یہ گناہ ہی رونق ِ زندگی محسوس ہوتے ہیں لیکن جب اسے نیکیوں کا نور حاصل ہوجاتا ہے تو وہ گناہوں کی لذت کو بھول جاتا ہے۔ جس طرح دن کی روشنی پھیل جاتی ہے تو رات کی تاریکی رخصت ہوجاتی ہے اسی طرح جب نیکیوں کا نور انسان کو حاصل ہوجائے تو اس کے اعضاء سے گناہوں کی تاریکی رخصت ہوجاتی ہے۔
(2) زندگی کو بدلنے کا پختہ ارادہ کیجئے
آپ کا جوبھی لائف اسٹائل ہے وہ بنتے بنا ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ بنی ہوئی چیز کو نئے سانچے(Template)میں ڈھالنا ایک مشکل کام ہے لہٰذا اپنی زندگی کو ری شیپ کرنے کے لئے آپ کو مضبوط فیصلے اور پختہ ارادے کی حاجت ہے۔جب آپ زندگی کو تبدیل کرنےکی ٹھان لیں گے تو دنیا کی کوئی طاقت آپ کی راہ میں رُکاوٹ نہیں بنے گی،اِن شآءَ اللہ۔ آپ نے بے نمازیوں، سُود خوروں،خطرناک قاتلوں، چالاک چوروں، منشیات کے اسمگلروں اور کرپشن کے ریکارڈ قائم کرنے والوں کے سُدھرنے کی سچی داستانیں(True stories) سنی ہوں گی۔ یہ اسی لئے ممکن ہوا کہ اللہ کی طرف سے ان کے دل میں نیک بننے کا خیال آیا ہوگا پھر مضبوط فیصلے اور پختہ ارادے نے ان کا لائف اسٹائل بدل کررکھ دیا۔ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃُ اللہِ علیہ کی توبہ کے بارے میں منقول ہے کہ آپ ایک لڑکی کے عشق میں ایسے گرفتار ہوگئے تھے کہ کسی پل چین ہی نہ آتا تھا۔ ایک مرتبہ سردیوں کی ایک طویل رات میں صبح تک اس کے مکان کے سامنے انتظار میں کھڑے رہے حتی کہ فجر کا وقت ہوگیا تو آپ کو شدید ندامت ہوئی کہ میں مفت میں ایک مخلوق کی خاطر اتنا انتظار کرتا رہا، اگر میں یہ رات عبادت میں گزارتا تو اس سے لاکھ درجے بہتر تھا۔ چنانچہ آپ نے فوراً توبہ کی اور عبادتِ الٰہی میں مصروف ہو گئے۔ ([1])
(3) مقاصدپر نظر ثانی کیجئے
اپنے مقاصد اور منزلوں کے تعین پر نظر ثانی (Revision) بہت ضروری ہے۔کیونکہ اس دنیا میں کسی نے دولت کی ریل پیل، کسی نے وسیع اختیارات،کسی نے عالیشان مکان اور گاڑیاں اور کسی نے آسائشات وسہولیات کی کثرت ہی کو اپنی زندگی کا مقصد سمجھ رکھا ہے۔یاد رکھئے کہ ان چیزوں کو جائز و حلال طریقے سے حاصل کرکے زندگی کا حصہ ضرور بنایا جاسکتا ہے لیکن زندگی کا مقصد نہیں۔ ہماری زندگی کا مقصدوہ ہے جسے ہمارے جسم اور رُوح کے خالق ومالک اللہ رب العزت نے بیان فرمایا:
)وَ مَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَ الْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ(۵۶)(
ترجمۂ کنزالایمان: اور میں نے جِنّ اور آدمی اتنے ہی (اسی لئے) بنائے کہ میری بندگی کریں۔([2])
یاد رکھئے کہ بندگی اور عبادت کا مفہوم بہت وسیع ہے۔ نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ، بھوکے کو کھانا کھلانا،غریب مسکین کی مالی مدد، دکھیاروں کی ہمدردی،بیمار کی دل جوئی، راہِ خدا میں خرچ، مساجد کی تعمیرات، ماں باپ کی خدمت، رشتہ داروں سے حسنِ سلوک، بیوی بچّوں کے لئے رزق حلال کمانا، ظاہری گناہوں سے بچنا، باطنی گناہوں حسد، تکبر، بغض و کینہ اور بدگمانی وغیرہ سے بچ کر عاجزی اختیار کرنا،مسلمانوں سے محبت کرنا، حسنِ ظن رکھنا عبادت کی مختلف صورتیں ہیں۔ اب یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ اپنی زندگی کو ایسا بنائیں کہ ہمارا مقصدِ حیات (Purpose of life) پورا ہوسکے۔
(4)مقصدِ حیات کی تکمیل میں رکاوٹیں دور کیجئے
غور کیجئے کہ حصولِ مقصد میں کونسی رکاوٹیں آپ کی راہ میں حائل ہیں؟ انہیں ہٹانے کی کوشش کیجئے۔ بڑی رُکاوٹ نفس و شیطان ہوتا ہے،یہ انسان کے پرانے دشمن ہیں جو اسے کہیں کا نہیں چھوڑتے۔ ان کو کنٹرول کرنے کے لئے نفس کی چالوں اور شیطان کی شرارتوں کو سمجھنا ضروری ہے۔ اس کے لئے احیاءُ العلوم،منہاج العابدین، شیطان کے بعض ہتھیار جیسی کتابیں اوررسالے سمجھ کر پڑھئے اور ان میں کی گئی نصیحتوں کو عملی زندگی میں نافذ کیجئے،اِن شآءَ اللہ کامیابی آپ کا مقدر ہوگی۔ اسی طرح ایسے دوستوں کی صحبت (Companionship) بھی رکاوٹ ہوتی ہے جنہوں نے ٹھانی ہوتی ہے کہ سُدھریں گے نہ سُدھرنے دیں گے۔ ان کے گروپ کا کوئی فرد جیسے ہی مقصدِ حیات کو پانےکے لئے قدم اُٹھاتا ہے یہ فوراً تبدیلی کی کوششوں کی حوصلہ شکنی (Discouragement)کردیتےہیں کہ تجھ سے نہیں ہوگا، اس پر ہوٹنگ کرتے ہیں کہ ’’نوسو چوہے کھاکے بلی حج کو چلی‘‘۔ بعض منفی تبصرے اور تأثرات لوگ ہمارے بارےمیں دیتے ہیں اور کچھ تبصرے ہم اپنے بارے میں خود کلامی (self-talk)کی صورت میں کرتے ہیں،یہ منفی خود کلامی چھوڑکرمثبت خود کلامی کی طرف آجائیے اور خود سے کہئے: میں کرسکتا ہوں (I can do)، اِن شآءَ اللہ آپ کی قوتِ ارادی مضبوط ہوجائے گی۔یونہی ایک رکاوٹ بُرے معمولات بھی ہیں جب تک ان معمولات کو تبدیل نہیں کیا جائے گا تبدیلی کے کامیاب سفر کا صرف خواب ہی دیکھاجاسکتا ہے۔جو شخص دَلْدَل میں پھنسا ہوا ہو وہ اپنے کپڑے گندے ہونے کا شکوہ کرے تو عجیب لگے گا۔
(5) تبدیلی کے راستوں کاانتخاب کیجئے
سفر کوئی بھی ہو راستے کا انتخاب بڑااہم ہوتا ہے یہی معاملہ تبدیلی کے سفر کا بھی ہے۔اس کےلئے گناہوں (بالخصوص وہ جن میں آپ مبتلا ہیں)کے نقصانات اورعذابات پر غور کیجئے اور سوچئے کیا آپ ان نقصانات وعذابات کا سامناکرسکتے ہیں؟ یقیناً نہیں کیونکہ جہنم کے عذابات اس قدر خوفناک اور دہشت ناک ہیں کہ ہم تصوُّر بھی نہیں کرسکتے،کئی احادیث و روایات میں یہ مضامین موجود ہیں کہ دوزخیوں کو ذِلّت و رُسوائی کے عالَم میں داخلِ جہنم کیا جائے گا، وہاں دُنیا کی آگ سے ستّر گنا تیز آگ ہوگی جو کھالوں کو جَلا کرکوئلہ بنادے گی، ہڈیوں کا سُرمہ بنادے گی، اس پر شدید دُھواں جس سے دَم گھٹے گا، اندھیرا تنا کہ ہاتھ کو ہاتھ سُجھائی نہ دے، بھوک پیاس سے نڈھال بیڑیوں میں جکڑے جہنمی کو جب پینے کے لئے اُبلتی ہوئی بدبودار پِیپ دی جائے گی تو منہ کے قریب کرتے ہی اس کی تپش سے منہ کی کھال جھڑ جائے گی، کھانے کو کانٹے دار تھوہڑ ملے گا، لوہے کے بڑے بڑے ہتھوڑوں سے اسے پِیٹا جائے گا۔ اسی قسم کے بے شمار رَنج واَلم اور تکلیفوں سے بھرپور جگہ ہوگی یہ جہنم!
اسی طرح نیکیوں کے فوائد اور انعامات پر نظر کیجئے کہ اگر آپ نیکیاں کرنے میں کامیاب ہوگئے تو یہ فائدے اور انعامات پا کرآپ کے وارےنیارےہوجائیں گے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک نے ارشاد فرمایا کہ میں نے اپنے نیک بندوں کے لئے ایسی ایسی نعمتیں تیار کر رکھی ہيں کہ جن کو نہ توکسی آنکھ نے دیکھا،نہ اس کی خوبیوں کو کسی کان نے سنا اور نہ ہی کسی انسان کے دل پر ان کی ماہیت کا خیال گزرا۔([3])
(6)تبدیلی کی قیمت بھی ادا کیجئے
جوچیز قدر رکھتی ہےوہ قیمت بھی مانگتی ہے یہی حال تبدیلی کا بھی ہے۔اس کی قیمت اداکرنے کے لئے تیار رہئے۔وہ قیمت یہ ہے کہ آپ کو اپنی رُوٹین اور خواہشات کی قربانی دینا ہوگی۔
(7) مستقل مزاج رہئے
کسی بھی کام میں کامیابی کے لئے مستقل مزاجی اہم کردار ادا کرتی ہے اگرآپ تھک ہار کر بیٹھ گئے تو تبدیلی کا سفر رُک جائے گا۔ مدینے کے سلطان،رَحْمتِ عالمیان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : اَحَبُّ الْاَعْمَالِ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی اَدْوَمُہَا وَاِنْ قَلَّ یعنی اللہ پاک کے یہاں سب سے پسندیدہ عمل وہ ہے جو ہمیشہ کیا جائے اگرچِہ قلیل ہو۔([4])
(8)اپنی فیملی کو اعتماد میں لے لیجئے
فیملی کی سپورٹ مل جائے تو مشکلات آسان ہوجاتی ہیں۔ اگر آپ کو لگے کہ فیملی آپ کی نیت اور ارادوں کو سمجھ سکتی ہے تو تبدیلی کے اس مشکل سفر میں اپنی فیملی کو اعتماد میں لے لیجئے۔ البتہ مخالفت کااندیشہ ہوتو حکمتِ عملی سے اپنا سفر جاری رکھئے۔ امید ہے کہ جب انہیں تبدیل ہوکر دکھا دیں گے تو وہ بھی تبدیلی کی افادیت کے قائل ہوجائیں گے اور عین ممکن ہے کہ آپ کو دیکھ کر وہ بھی تبدیلی کے اس سفر پر روانہ ہونے کے لئے تیار ہوجائیں۔
(9)محض نتیجے پر نہیں عمل پر بھی فوکس کریں
جنہوں نے پہاڑ کی چوٹی تک پہنچناہو وہ محض چوٹی پر نظر نہیں رکھتےبلکہ راستوں پر بھی فوکس کرتےہیں،اس لئے نتیجے اور منزل پر ہی نہیں راہِ عمل پر بھی نظر رکھئے۔ہر قدم اٹھانے سے پہلے یہ غور کرلیجئے کہ اس کا رُخ تبدیلی کی منزل کی جانب ہے یا کسی اور طرف؟ محتاط ہمیشہ سُکھی رہتا ہے۔
(10)اچھی صحبت کا انتخاب
اچھے اور نیک لوگوں کی صحبت مل جائے تو کردار میں تبدیلی جلد اور دیر پا ہوتی ہے۔فی زمانہ یہ صحبت نیک بنانےوا لی تنظیم دعوتِ اسلامی بھی بین الاقوامی سطح پر فراہم کرتی ہے۔ دنیا بھر میں آپ کو لاکھوں افراد مل سکتےہیں جنہوں نے اپنے کردار و عمل میں تبدیلی کا کامیاب سفر دعوتِ اسلامی کے ساتھ کیا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments