دوسروں کو دیجئے

درس کتاب زندگی

دوسروں کو دیجئے (Give to others)

*مولانا ابو رجب محمد آصف عطّاری مدنی

ماہنامہ فیضانِ مدینہ اپریل 2025

ہم خواہی نخواہی ہر کام میں اپنا فائدہ ضرور ڈھونڈتے ہیں کہ ”مجھے کیا ملے گا؟“ اس میں حرج نہیں لیکن ہمیں یہ بھی سوچنا چاہئے کہ ”میں دوسروں کو کیا دے سکتا ہوں؟“جب ہم مخلص (Sincere) ہوکر کسی کو کچھ دیں گے تو کسی نہ کسی صورت میں ہمیں بھی فائدہ پہنچے گا کہ مشہور ہے:”اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے۔“ دوسروں کا سوچنے والے کو کیسا فائدہ ہوا؟ اس کا اندازہ اس روایت سے لگائیے کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: ایک درخت کی شاخ بیچ راستہ پر تھی، ایک شخص گیا اور کہا: میں اُس کو مسلمانوں کے راستہ سے دُور کر دوں گا کہ اُن کو ایذا نہ دے، وہ جنت میں داخل کر دیا گیا۔([1])

بہرحال ہم اپنی ذات سے دوسروں کو جتنا نفع اور فائدہ پہنچا سکتے ہیں،پہنچانا چاہئے۔اسی کی نصیحت ہمارے پیارے رسول محمدِ عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمائی ہے:مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْکُمْ اَنْ یَّنْفَعَ اَخَاہُ فَلْیَنْفَعْہُ یعنی تم میں سے جو کوئی اپنے بھائی کو نفْع پہنچا سکتا ہوتو اُسے نَفع پہنچائے۔([2])

نفع پہنچانےکی کئی صورتیں ایسی ہیں جن میں ہماری تھوڑی بہت رقم خرچ ہوتی ہے جیسے کسی نادار مریض کو دوائی خرید دینا یا کسی غریب قرض دار کا قرض ادا کردینا وغیرہ۔کچھ لوگوں کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ ہم کسی کے کام کیسے آئیں؟ ہم تو خود مالی مشکلات میں گِھرے ہوئے ہیں۔ ایسوں کی خدمت میں گُزارش ہے ”جیب چاہے چھوٹی ہو دل بڑا ہونا چاہئے۔“یہ ضروری نہیں کہ لمبی چوڑی رقم خرچ کرکے ہی کسی کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔آپ اپنی حیثیت کے مطابق تھوڑے پیسوں سے بھی کسی کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں مثلاً کسی غریب اور نادار طالب علم کو بال پوائنٹ خرید دیجئے جو چند روپوں کا آجاتا ہے۔ دوسری بات یہ کہ ہم دوسروں کو بہت سے ایسے فوائد (Benefits) پہنچا سکتے ہیں جن میں ہمارا ایک روپیہ بھی خرچ نہیں ہوتا جیسے؛

(1)علمِ دین سکھائیے: فی زمانہ میڈیا و سوشل میڈیا کی چمک دمک نے جہالت کے اندھیرے بڑھا دئیے ہیں۔ ان اندھیروں کو چراغِ علم کی روشنی سے ہی دُور کیا جاسکتا ہے۔ یہ علم ہی ہے جو ایک مسلمان کو فرائض و واجبات کی ادائیگی کا طریقہ اور زندگی گزارنے کا سلیقہ سکھاتا ہے۔ہم کسی کو علمِ دین سکھا سکتے ہیں جبکہ اس کی اہلیت رکھتے ہوں۔ علم سکھانا صدقۂ جاریہ بھی ہے، ابن ماجہ میں ہے: نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اِنَّ مِمَّا یَلْحَقُ الْمُؤْمِنَ مِنْ عَمَلِهٖ وَحَسَنَاتِهٖ بَعْدَ مَوْتِهٖ عِلْمًا عَلَّمَهُ وَنَشَرَهُ یعنی مومن کومرنے کے بعد اس کے عمل اور نیکیوں میں سے جوکچھ پہنچتا ہے اس میں وہ علم بھی ہے جسے وہ سکھا اور پھیلا گیا۔ ([3]) حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں بہتر وہ ہے جو قراٰن سیکھے اور سکھائے۔([4]) لہٰذا قراٰن سکھانا بھی دوسروں کو دینے کی ایک صورت ہے۔

(2)نیکی کی دعوت دیجئے:بُرائی سے روکنے اور نیکی کرنے کی ترغیب فرد اور معاشرے میں تبدیلی لاسکتی ہے۔ اس میں اپنا کردار ادا کیجئے۔

(3)محبت کیجئے: کسی سے اس لئے محبت رکھنا کہ وہ میرا مسلمان بھائی ہے، ایمانی تقاضا ہے۔سرکارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:”ایمان کے بعد سب سے افضل عمل لوگوں سے محبت کرنا ہے۔“([5])

(4)خوشیاں بانٹئے:کسی کو چھوٹی چھوٹی خوشیاں دینے میں ہمارا کچھ بھی خرچ نہیں ہوگا لیکن کسی کی خزاں رسیدہ زندگی پُر بہار ہوسکتی ہے۔ فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے:اِنَّ اَحَبَّ الْاَعْمَالِ اِلَى اللهِ بَعْدَ الْفَرَائِضِ اِدْخَالُ السُّرُورِ عَلَى الْمُسْلِمِ یعنی اللہ پاک کے نزدیک فرائض کی ادائیگی کے بعد سب سے افضل عمل مسلمان کا دل خوش کرنا ہے۔([6]) فیضُ القدیر میں ہے: فرضِ عین یعنی فرض نماز، روزے، زکوٰۃ اور حج وغیرہ کی ادائیگی کےبعد اللہ پاک کے نزدیک سب سے پسندیدہ عمل یہ ہے کہ مسلمان کو خوش کیا جائے۔ خواہ اسے کچھ دے کریا اس سے غم او رتکلیف کو دور کرکے یا مظلوم کی مدد کرکے یا اس کے علاوہ ہر وہ عمل جو خوش کرنے کا ذریعہ ہو۔([7])

(5)عزت دیجئے: کسی کو اس کی حیثیت کے مطابق عزت و احترام دینا اسلامی اخلاق کا تقاضا ہے،رسولُ ا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے حکم فرمایا ہے: اَنْزِلُوا النَّاسَ مَنَازِلَھُم یعنی لوگوں کو ان کے مراتب و درجات کے مطابق اُتارو۔([8])یعنی ان کے مقام کے مطابق ان کی عزت افزائی اور مہمان نوازی کرو۔

اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہُ عنہا کے حضور ایک سائل حاضرہوا اسے ٹکڑا عطافرمایا،ایک ذی عزت مسافر گھوڑے پرسوارحاضر ہوا اس کی نسبت فرمایا کہ باعزاز اُتارکر کھاناکھلایا جائے۔

امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرّحمٰن یہ واقعہ نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: اصل مدارنیت پر ہے اگرسائل کو بوجہ اس کے فَقر (غربت)کے ذلیل سمجھے اور غنی کو بوجہ اس کی دنیا کے عزت دارجانے توسخت بیجاسخت شنیع (ناپسندیدہ) ہے اور اگر ہر ایک کے ساتھ خُلقِ حَسَن (خوش اخلاقی) منظورہے توجتنا جس کے حال کے مناسب ہے اس پر عمل ضرور ہے۔([9])

(6)سفارش کیجئے: اگر آپ کسی کی جائزسفارش کرسکتے ہیں تو ضرور کرنی چاہئے۔ حضورِ انور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی اپنے مسلمان بھائی اورکسی صاحبِ حیثیت کے درمیان بھلائی پہنچنے یا تنگی کے آسان ہونے میں مددگار بنا تو اللہ تبارک وتعالیٰ پل صراط پر اس کی مدد فرمائے گا جس دن قدم ڈگمگا رہے ہوں گے۔([10])

(7)عزت کا تحفظ کیجئے:کسی کے بارے میں مَن گھڑت منفی باتیں کی جارہی ہوں اور وہ اپنے دفاع سے عاجز ہوتو ہم اس کے بارے میں مثبت باتیں کرکے اس کی عزت کا تحفظ کرسکتے ہیں۔ حضورسرورِکونین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو بھی اپنے مسلمان بھائی کی عزت کی حفاظت کرتاہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی جہنم سے حفاظت فرمائے گا۔([11])

(8)مسکراہٹیں پھیلائیے: اسٹریس اور ٹینشن میں مبتلا ہونے والے لوگ عموماًمسکرانا بھول چکے ہوتے ہیں۔ انہیں مسکراہٹ کا تحفہ دےدیجئے۔آپ ان کے سامنے مسکرائیں گے تو جواب میں وہ بھی مسکرا دیں گے۔مسکرانےمیں آپ کی کوئی رقم خرچ نہیں ہوگی لیکن آپ کو صدقہ کا ثواب مل جائے گاکہ حدیث پاک میں ہے: ”اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے۔“([12])

(9)شکریہ ادا کیجئے:اپنے ساتھ بھلائی کرنے والے کا شکریہ ادا کیجئے چاہے وہ بھلائی بڑی ہویا چھوٹی! فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو لوگوں کا شکر ادا نہیں کرتا وہ اللہ کا شکرگزار نہیں ہو سکتا۔([13]) مِراٰۃُ المناجیح میں ہے: بندہ کا شکریہ ہر طرح کا چاہئے؛دِلی، زبانی، عملی، یوں ہی رب کا شکریہ بھی ہر قسم کا کرے۔([14])

(10)عیب چھپائیے:انسان بھول اور خطا کا مرکب ہے، خوبیوں کے ساتھ ساتھ خامیاں بھی اس کی ذات کا حصہ ہوتی ہیں۔ ایسے میں ہمیں کسی کے پوشیدہ عیبوں کا پتا چل جائے تو پَردہ پوشی (Concealment) کرکے اسے رسوائی سے بچانا چاہئے، فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جس نے کسی مسلمان کی پَردہ پوشی کی اللہ پاک دنیا و آخرت میں اس کی ”پَردہ پوشی“ فرمائے گا۔([15]) مراٰۃ المناجیح میں ہے: چُھپے ہوئے عیب ظاہر نہ کرے! بشرطیکہ اس ظاہر نہ کرنے سے دین یا قوم کا نقصان نہ ہو، ورنہ ضرور ظاہرکر دے۔([16])

(11)عیادت کیجئے:بیمار ہونے والا ایک وقت میں کئی آزمائشوں کا شکار ہوسکتا ہے؛ جسم میں درد، نیند میں کمی، دوائیوں کے اثرات، چلنے پھرنےمیں دشواری،صحت یابی کا انتظار، علاج پر آنے والے اخراجات کی ادائیگی کی پریشانی، اس کے ساتھ ساتھ بیمار کو تنہائی کا بھی سامناہوتا ہے۔ایسےمیں ہم مریض کی دیکھ بھال کریں یا اس کی خیر خبر لے لیں تو اس کی دلجوئی ہوگی۔بیمار کی عیادت سماجی زندگی کا حسن بھی ہے اور کارِ ثواب بھی۔فرمان مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو مسلمان کسی مسلمان کی عیادت کے لئے صبح کو جائے تو شام تک اور شام کو جائے تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لئے استغفار کرتے ہیں اور اس کے لئے جنت میں ایک باغ ہوگا۔([17])

(12)تعزیت کیجئے:اسی طرح رنج و اَلم کی کڑی دھوپ میں جلنےوالے دُکھیاروں سے اظہار ہمدردی بھی کرنا چاہئے۔ احادیث میں اس کے فضائل بیان ہوئے ہیں،فرمانِ مصطفےٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہے: جو کسی غمزدہ شخص سے تعزیت کر ے گا اللہ پاک اُسے تَقویٰ کا لباس پہنائے گا اور رُوحوں کے درمِیان اس کی رُوح پر رَحْمت فرمائے گا اور جو کسی مصیبت زدہ سے تعزیت کرے گا اللہ پاک اُسے جنّت کے جوڑوں میں سے دوایسے جوڑے پہنائے گا جن کی قیمت دنیا بھی نہیں ہوسکتی۔([18])

ہم دوسروں کو وہ کچھ بھی دے سکتے ہیں جس کا تذکرہ ان دو فرامینِ مصطفےٰ میں موجود ہے: دو شخصوں میں عدل کرنا صدقہ ہے، کسی کو جانور پر سوار ہونے میں مدد دینا یا اُس کا اسباب اُٹھا دینا صدقہ ہے اور اچھی بات صدقہ ہے اور جو قدم نماز کی طرف چلے گا صدقہ ہے، راستہ سے اذیت کی چیز دور کرنا صدقہ ہے۔([19])اپنے بھائی کے سامنے مسکرانا بھی صدقہ ہے، نیک بات کا حکم کرنا بھی صدقہ ہے، بُری بات سے منع کرنا صدقہ ہے، راہ بھولے ہوئے کو راہ بتانا صدقہ ہے، کمزور نگاہ والے کی مدد کرنا صدقہ ہے، راستہ سے پتھر، کانٹا، ہڈی دور کرنا صدقہ ہے، اپنے ڈول میں سے اپنے بھائی کے ڈول میں پانی ڈال دینا صدقہ ہے۔([20])

آخری بات:اسی طرح غور کرتے چلے جائیے تو ایک طویل فہرست بنے گی کہ ہم دوسروں کو کیا کچھ دے سکتے ہیں مثلاً ٭کسی کو اپنا وقت دے سکتے ہیں ٭اسے مایوسی کی دلدل سے نکال سکتے ہیں ٭اچھا مشورہ دے سکتے ہیں ٭ کوئی ہُنر سکھا سکتے ہیں ٭دُعا دے سکتے ہیں ٭اپنا تجربہ شیئر کرسکتے ہیں ٭موٹیویٹ کرسکتے ہیں ٭کیرئیر کونسلنگ کرسکتے ہیں ٭روڈ پار کرنے میں مدد کرسکتے ہیں اور ایڈریس بتانے میں مددکرسکتے ہیں۔ محدثِ اعظم پاکستان حضرت مولانا سردار احمد رحمۃُ اللہِ علیہ کی خدمت میں آنے والوں میں سے بعض عرض کرتے کہ ہم نے فتویٰ لکھوانا ہے تو محدثِ اعظم یوں نہ فرماتے کہ جاؤ نیچے دارُالافتاء میں جاکر لکھوا لو، بلکہ کسی طالبِ علم سے فرماتے: مولانا! دیکھو یہ صاحب گاؤں سے آئے ہیں، انہیں دارُالافتاء معلوم نہیں، لہٰذا ان کو دارُالافتاء میں لے جاؤ اور مفتی صاحب کو کہو کہ ان کو فتویٰ بھی لکھ دیں اور چائے بھی پلائیں۔([21])

عظمتوں کی بلندی پر فائز محدثِ اعظم پاکستان رحمۃُ اللہِ علیہ کا کم پڑھے لکھے دیہاتیوں کی مددکرنے اور انہیں فائدہ پہنچانے کا یہ انداز بڑا منفرد تھا کہ یہ راہنمائی کرنے کے بعد کہ تحریری فتویٰ کہاں سے ملے گا؟ دارُالافتاء کی تلاش میں پریشانی سے بچانے کے لئے کسی طالبِ علم کو ان کے ساتھ بھی کردیا کرتے۔

اللہ کریم ہمیں بُزرگانِ دین کی پیروی کرنے اور دوسروں کو اپنی ذات سے فائدہ پہنچانے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی



([1])مسلم، ص 1081، حدیث: 6670

([2])مسلم،ص931، حدیث: 5731

([3])ابن ماجۃ، 1/157، حدیث: 242

([4])بخاری،3/410، حدیث: 5027

([5])جامع الاحادیث:2/13،حدیث:3495

([6])معجم کبیر،11/59، حدیث: 11079

([7])دیکھئے:فیض القدیر،1/216،تحت الحدیث:200

([8])ابو داؤد، 4/343، حدیث: 4842

([9])فتاویٰ رضویہ، 24/378

([10])دیکھئے: مجمع الزوائد،8/349،حدیث:13709

([11])شرح السنۃ، 6/494، حدیث: 3422

([12])ترمذی، 3/384، حدیث: 1963

([13])ابو داؤد،4/335،حدیث:4811

([14])مراٰۃ المناجیح،4/357

([15])مسلم، ص 1110، حدیث: 6853، ملتقطاً

([16])مراٰۃ المناجیح، 1/189

([17])ترمذی، 2/290، حدیث: 971

([18])معجم اوسط،6/429،حدیث: 9292

([19])مسلم، ص391،حدیث: 2335

([20])ترمذی، 3/384، حدیث: 1963

([21])حیات محدث اعظم، ص179۔


Share