درس کتاب زندگی
اپنی زندگی بدلئے (Change your life)
*مولانا ابورجب محمد آصف عطّاری مدنی
ماہنامہ فیضانِ مدینہ جنوری 2025
زندگی کو بہتر بنانے کےلئے اسے بدلنا بہت ضروری ہے اور زندگی بدلنے کے لئے ان Tipsپر عمل کرنا بہت مفید ہے جنہیں ضروری وضاحت کے ساتھ پیش کررہا ہوں۔ مگر خیال رہے کہ ان باتوں کو جائز اور باعثِ ثواب کاموں کی حد تک محدود سمجھا جائے۔
(1)غلطی کی نشاندہی کرنے والے سے ناراض ہوجانا نادانی ہے۔
وضاحت:غلطی کا نتیجہ نقصان کی صورت میں نکلتا ہے اس لئے نشاندہی کرنے والے کا تعلق کسی بھی طبقے،عمر کے کسی بھی حصے سے ہو پھر غلطی دنیاوی ہو یا دینی!نشاندہی کرنے والے کی اصلاح قبول کرنی چاہئے مثلاًآپ کسی شادی وغیرہ کی تقریب میں جارہے ہوں اور غلط راستے پر چل پڑیں،اگر گلی میں کھیلنے والاچھوٹابچہ بھی آپ کو بتادے کہ آپ غلط راستے پر جارہے ہیں یہ راستہ شادی والے گھر نہیں جاتا تو کیا آپ اس سے ناراض ہوں گےیا شکر گزار؟ کہ اس کی وجہ سے میں مشقت اور پریشانی سے بچ گیا۔اس طرح اگر ہم سےنماز میں کوئی غلطی ہورہی ہے تو ہماری اصلاح کرنے والا ہمارا محسن ہے، اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنا چاہئے:جزاک اللہ خیراًکیونکہ اپنی اصلاح ہماری زندگی کے اس مدنی مقصد کا حصہ ہے کہ ’’مجھے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشِش کرنی ہے۔‘‘
(2)مزاج شناسی کا فقدان لوگوں سےاچھے تعلقات میں رکاوٹ ہے۔
وضاحت:لوگوں کے مزاجوں میں فرق ہوتا ہے،مزاج کے خلاف بات ہونے پر لوگ ناراض ہوجاتے ہیں،اس لئے ہمیں ملنے جلنے والوں کے مزاج کا پتا ہونا چاہئے کہ انہیں کیا اچھا لگتا ہے اور کیا بُرا؟اس کے مطابق ان سے سلوک کیا جائے۔دینی خدمات کرنے والے مبلغین کے لئے مزاج شناسی بہت مفید ہے۔
(3)آمدنی اور خرچ میں توازن نہ رکھنا مالی تنگدستی کا بڑا سبب ہے۔
وضاحت:آج کل ہر دوسرا شخص تنگدستی کا رونا روتا ہے مگر اس کے اسباب پر غور نہیں کرتا۔ تنگ دستی کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ جتنی رقم کمائی جائے اس سے زیادہ خرچ کرڈالی جائے۔اس لئے ضروری ہے کہ جب کوئی خرچہ کرنا ہو یہ دیکھ لیا جائے کہ آپ کے پاس پیسے کتنے ہیں!مشہور ہے ؛چادر دیکھ کر پاؤں پھیلانا چاہئے۔
(4)جو آپ کی خوشیوں پر خوش اور دکھوں پر دکھی ہو اس سے اپنا دکھ سکھ ضرور شیئر کیجئے۔
وضاحت:انسان کا واسطہ عموماً چار قسم کے لوگوں سے پڑتا ہے (1)آپ کے دُکھ پر غمگین ہونے والے (2)آ پ کے دکھی ہونے پر خوش ہونے والے(3)آپ کی خوشی پر غمگین ہونے والے (4)آپ کی خوشی پر خوش ہونے والے۔
پہلی اور چوتھی قسم کے لوگ (جیسے ماں باپ، بہن بھائی، استاذ، گہرے دوست) آپ سے مخلص ہوتے ہیں اس لئے ان سے اپنا دُکھ سکھ ضرور شیئر کرنا چاہئے۔
(5)ہم اپنا مال چھین/چُرا لینے والے کو چور ڈاکو جبکہ وقت چُرالینے والے کو اپنا دوست قرار دیتے ہیں۔
وضاحت:یہ حقیقت ہے کہ وقت مال سےزیادہ قیمتی ہے، جانے والے مال کو وقت صرف کرکے دوبارہ کمایا جاسکتا ہے لیکن وقت ایک مرتبہ چلا جائے کروڑوں روپے خرچ کرکے بھی واپس نہیں لایا جاسکتا۔ مال چھیننے والا ڈکیت کہیں دوبارہ دکھائی دے جائے تو ہم شور مچادیتے ہیں کہ پکڑو!پکڑو! اس نے مجھ سے ڈکیتی کی تھی جبکہ وقت ضائع کرنے والا گویا ہمارے وقت کا چور ہے، مگر اسے ہم اپنا دوست اور پیارا قرار دیتے ہیں اور روز اس سے ہنسی خوشی ملتے ہیں اور اپنا وقت چوری کرواتے ہیں۔’’واہ! کیا بات ہے ہماری دانش مندی کی!‘‘
(6)آپ کی کاوش آمدنی میں ڈھل جائے، اس بات کی جلدی نہ مچائیے۔
وضاحت:اس سوچ کا شکار خاص کر وہ نوجوان ہوتے ہیں جو عملی زندگی میں نئے نئے داخل ہوتے ہیں اور اسٹرگل کے ایام میں ہوتےہیں۔جب وہ کسی کامیاب اسلامک ٹیچر،اسکالر، رائٹر،ریسرچر،بزنس مین یا افسر کو دیکھتے ہیں جنہیں ان کے کام کا ٹھیک ٹھاک معاوضہ مل رہا ہوتا ہے تو ان کے دل میں یہ خواہش جاگتی ہے کہ ہمیں بھی ہر ہر کام کا معاوضہ ملنا چاہئے اور جب ایسا نہیں ہوتا تو وہ ترقی کی کوشش چھوڑ دیتے ہیں۔ایسے نوجوانوں کو چاہئے کہ جن لوگوں کو دیکھ کر وہ احساسِ کمتری میں مبتلا ہورہے ہیں،یہ دیکھیں کہ اس مقام تک پہنچنے کے لئے انہوں نے کس قدر محنت کی ہے؟ پھر وہ بھی محنت اور کوشش میں لگے رہیں، کامیابی ان کا مقدر ہوگی،اِن شآءَ اللہ۔
(7)کسی پر ایڈوانس تنقید شرمندہ کرواسکتی ہے۔
وضاحت:ایسے لوگوں سے بھی واسطہ پڑتا ہے جو کوئی بھی کام شروع/مکمل ہونے سے پہلے ہی تنقید کے تیر برسانا شروع کردیتے ہیں اور ان کے تبصرے بڑے حوصلہ شکن ہوتے ہیں مثلاً تم سے یہ کام نہیں ہوگا، یہ کام ہوہی نہیں سکتاتم کچھ بھی کرلو اس امتحان میں پاس نہیں ہوسکتے یا تمہاری پوزیشن نہیں آسکتی۔ ہمیں چاہئے کہ حوصلہ ہارنےکے بجائے بھرپور کوشش اور لگن سے اپنا کام کرنا شروع کردیں،ایک دن آئے گا کہ ایڈوانس تنقید کرنے والوں کو منہ کی کھانی پڑے گی۔
(8)تھوڑی سی تکلیف پر حواس باختہ نہ ہوا کریں، بعضوں کی عادت ہوتی ہے کہ سوئی چبھنے پر ایسا اچھلتےہیں جیسے کسی نے نیزہ مار دیا ہو۔
وضاحت:امتحان میں سوال مشکل آجائے،خاتونِ خانہ برتن دھونے میں تاخیر کردے، کپڑوں پر استری برابر نہ ہو، بچے کو تھوڑی سی چوٹ لگ جائے،اس کے بچے کی محلے کے بچوں سے ہلکی پھلکی لڑائی ہوجائے، دفتر میں سوئپر صفائی اچھی نہ کرے، پرنٹر سے پرنٹ نکالنے میں تکنیکی رکاوٹ آجائے، توقع کے مطابق تنخواہ نہ بڑھے، معمولی سی ٹریفک جام ہوجائے الغرض چھوٹے سے چھوٹے معاملے پر بعضوں کا رویہ اسی طرح کا ہوتا ہے۔ ایسوں کا دل بہت تھوڑا ہوتا ہے خاص کر اپنے بارے میں، یہ ہر بات کو دل پر لےلیتےہیں پھر اسی کے مطابق اپنا رد عمل دیتےہیں،حالانکہ سمجھا جائے تو یہ اتنے بڑے معاملات نہیں ہوتے۔ ایسے لوگ اپنے طرزِ عمل کی وجہ سے خود بھی پریشان ہوتے ہیں اور اپنے اردگرد والوں کو بھی تشویش میں مبتلا کردیتے ہیں۔طبیعت میں ٹھہراؤ نہ رکھنے والے ایسے لوگ زندگی میں کم ہی کامیاب ہوتےہیں۔اگر آپ کا مزاج ایسا ہے تو اسے بدلنے کی کوشش کیجئے۔
ہر بات کو یوں زخم بناتے نہیں دل کا
ہر تیر کو پیوستِ رگ ِجاں نہیں کرتے
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* چیف ایڈیٹر ماہنامہ فیضانِ مدینہ، رکن مجلس المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments