
نئے لکھاری
کفار کے اعمال اور قراٰنی مثالیں
*عبدالحنان
ماہنامہ فیضانِ مدینہ مارچ 2025
قراٰنِ مجید میں کفار کے اعمال اور ان کے انجام کا بار بار ذکر کیا گیا ہے تاکہ مسلمانوں کو نصیحت اور سبق حاصل ہو، اللہ پاک نے کفار کے اعمال کو مختلف مثالوں کے ذریعے واضح کیا ہے تاکہ ان کے بُرے اثرات کو سمجھا جا سکے۔ کفار کے اعمال کو بعض اوقات بیکار، بے وزن اور عذاب کا سبب قرار دیا گیا ہے۔ ذیل میں قراٰنِ کریم میں بیان کردہ کفار کے اعمال کی کچھ مثالیں پیش کی جا رہی ہیں:
(1)راکھ کی مثال (اعمال کی بربادی) : اللہ پاک نے کفار کے اعمال کو اس راکھ سے تشبیہ دی جو تیز ہوا کے دن اُڑا دی جائے، یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ کفار کے اعمال آخرت میں بے فائدہ اور ضائع ہو جائیں گے:
(مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸))
ترجَمۂ کنزالایمان: اپنے رب سے منکروں کا حال ایسا ہے کہ ان کے کام ہیں جیسے راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آ یا آندھی کے دن میں ساری کمائی میں سے کچھ ہاتھ نہ لگا یہی ہے دُور کی گمراہی۔ (پ13، ابراھیم: 18)
اس آیت میں کفار کے اعمال کو تیز ہوا کے دن میں اڑائی جانے والی راکھ سے تشبیہ دی گئی ہے۔ جس طرح راکھ ہوا کے جھونکوں کے ساتھ بکھر جاتی ہے، اسی طرح کفار کے اعمال بھی آخرت میں ضائع ہو جائیں گے اور ان کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
(2)سراب کی مثال (دھوکا): اللہ پاک نے کفار کے اعمال کو ایک ایسے سراب سے تشبیہ دی ہے جو پیاسے کو پانی کی طرح دکھائی دیتا ہے، لیکن جب وہ اس کے قریب جاتا ہے تو اسے کچھ بھی نہیں ملتا، چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
(وَالَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا وَّ وَجَدَ اللّٰهَ عِنْدَهٗ فَوَفّٰىهُ حِسَابَهٗؕ-وَاللّٰهُ سَرِیْعُ الْحِسَابِۙ(۳۹))
ترجَمۂ کنزُالایمان: اور جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا اور اللہ کو اپنے قریب پایا تو اُس نے اس کا حساب پورا بھردیا اور اللہ جلد حساب کرلیتا ہے۔(پ18، النور:39)
کفار کے اعمال کو سراب سے تشبیہ دی گئی ہے، جو پانی کی طرح نظر آتا ہے، لیکن حقیقت میں وہ کچھ بھی نہیں ہوتا۔ اس آیت میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ کفار دنیا میں اپنے اعمال کو اچھا سمجھتے ہیں، لیکن آخرت میں انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
(3)بہتے پانی کی سطح پر جھاگ(باطل): باطل کی مثال اس جھاگ سے دی گئی جو پانی کی سطح پر ظاہر ہوتا ہے، چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
(اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًاؕ-وَمِمَّا یُوْقِدُوْنَ عَلَیْهِ فِی النَّارِ ابْتِغَآءَ حِلْیَةٍ اَوْ مَتَاعٍ زَبَدٌ مِّثْلُهٗؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْحَقَّ وَ الْبَاطِلَ ﱟ فَاَمَّا الزَّبَدُ فَیَذْهَبُ جُفَآءًۚ-وَاَمَّا مَا یَنْفَعُ النَّاسَ فَیَمْكُثُ فِی الْاَرْضِؕ-كَذٰلِكَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَؕ(۱۷))
ترجَمۂ کنزالعرفان: اس نے آسمان سے پانی اتارا تو نالے اپنی اپنی گنجائش کی بقدر بہہ نکلے تو پانی کی رَو اُس پر ابھرے ہوئے جھاگ اٹھا لائی اور زیور یا کوئی دوسرا سامان بنانے کیلئے جس پروہ آگ دہکاتے ہیں اس سے بھی ویسے ہی جھاگ اٹھتے ہیں۔ اللہ اسی طرح حق اور باطل کی مثال بیان کرتا ہے تو جھاگ تو ضائع ہوجاتا ہے اور وہ (پانی) جو لوگوں کو فائدہ دیتا ہے وہ زمین میں باقی رہتا ہے۔ اللہ یوں ہی مثالیں بیان فرماتا ہے۔(پ13، الرعد:17)
اس مثال کا خلاصہ یہ ہے کہ باطل اس جھاگ کی طرح ہوتا ہے جو ندیوں میں ان کی وسعت کے مطابق بہتے پانی کی سطح پر اور سونا، چاندی،تانبہ،پیتل وغیرہ پگھلی ہوئی معدنیات کی مائع سطح پر ظاہر ہوتی ہے جبکہ حق جھاگ کے علاوہ باقی بچ جانے والی اصل چیز کی طرح ہوتا ہے تو جس طرح بہتے پانی یا پگھلی ہوئی معدنیات کی سطح پرجھاگ ظاہر ہوکر جلدی زائل ہوجاتا ہے ایسے ہی باطل اگرچہ کتنا ہی ابھر جائے اور بعض حالتوں اور وقتوں میں جھاگ کی طرح حد سے اُونچا ہوجائے لیکن انجام کار مٹ جاتا ہے اور حق اصل چیز اور صاف جوہر کی طرح باقی و ثابت رہتا ہے۔(صراط الجنان، 5/101)
(4)بیکار کھیتی (ضائع شدہ اعمال): کفار کے خرچ اور دکھاوے کے لئے کئے گئے خرچ کی مثال قراٰنِ پاک میں یوں بیان کی گئی:
(مَثَلُ مَا یُنْفِقُوْنَ فِیْ هٰذِهِ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَثَلِرِیْحٍ فِیْهَا صِرٌّ اَصَابَتْ حَرْثَ قَوْمٍ ظَلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ فَاَهْلَكَتْهُؕ-وَ مَا ظَلَمَهُمُ اللّٰهُ وَ لٰكِنْ اَنْفُسَهُمْ یَظْلِمُوْنَ(۱۱۷))
ترجَمۂ کنز العرفان: اس دنیاوی زندگی میں جو خرچ کرتے ہیں اس کی مثال اس ہوا جیسی ہے جس میں شدید ٹھنڈ ہو، وہ ہوا کسی ایسی قوم کی کھیتی کو جاپہنچے جنہوں نے اپنی جانوں پر ظلم کیا ہو تو وہ ہوا اس کھیتی کو ہلاک کردے اور اللہ نے ان پر ظلم نہیں کیا بلکہ وہ خود اپنی جانوں پر ظلم کرتے ہیں۔(پ4، اٰل عمرٰن: 117)
اس آیت میں کافر کے خرچ اور ریاکاری کے طور پر خرچ کرنے والے کی مثال بیان فرمائی گئی کہ ان کے خرچ کو ان کا کفر یا ریاکاری ایسے تباہ کردیتی ہے جیسے برفانی ہوا کھیتی کو برباد کردیتی ہے اور ان کے ساتھ یہ معاملہ کوئی ظلم و زیادتی نہیں بلکہ یہ ان کے کفر یا نفاق یا ریاکاری کا انجام ہے تو یہ خود اِن کا اپنی جانوں پر ظلم ہے۔(صراط الجنان، 2/40)
(5)اندھیروں کی مثال (گمراہی): کفار کی حالت کو قراٰن میں گہرے سمندر کی تاریکیوں سے تشبیہ دی گئی ہے، جہاں روشنی کی کوئی کرن نہیں پہنچتی، جیسا کہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
(اَوْ كَظُلُمٰتٍ فِیْ بَحْرٍ لُّجِّیٍّ یَّغْشٰىهُ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ مَوْجٌ مِّنْ فَوْقِهٖ سَحَابٌؕ-ظُلُمٰتٌۢ بَعْضُهَا فَوْقَ بَعْضٍؕ-اِذَاۤ اَخْرَ جَ یَدَهٗ لَمْ یَكَدْ یَرٰىهَاؕ-وَ مَنْ لَّمْ یَجْعَلِ اللّٰهُ لَهٗ نُوْرًا فَمَا لَهٗ مِنْ نُّوْرٍ۠(۴۰))
ترجَمۂ کنزالایمان:یا جیسے اندھیریاں کسی کُنڈے کے دریا میں اس کے اوپر موج، مو ج کے اوپر اَور موج اس کے اوپر بادل اندھیرے ہیں ایک پر ایک جب اپنا ہاتھ نکالے تو سوجھائی دیتا معلوم نہ ہو اور جسے اللہ نور نہ دے اُس کے لیے کہیں نور نہیں۔ (پ18، النور:40)
یہ مثال کفار کے دلوں، ان کی گمراہی اور جہالت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ جیسے گہرے سمندر میں کوئی روشنی نہیں ہوتی اور انسان اپنی ہی انگلی کو نہیں دیکھ سکتا، اسی طرح کفار کے دل بھی اندھیروں میں ڈوبے ہوتے ہیں۔
اللہ پاک ہمیں ایمان پر ثابت قدمی عطا فرمائے اور قراٰنِ پاک پڑھ کر عمل کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
*(درجۂ سادسہ،جامعۃُ المدینہ کنزالایمان رائیونڈ)
Comments