پیارے بچّو! آج ہم آپ کو ایسے شہرکے بارے میں بتاتے ہیں جہاں ایک
عجیب وغریب قانون تھا کہ سال کے آخر میں
جو بھی اجنبی آدمی اس شہرمیں پہلی مرتبہ داخل ہوتا تو وہاں کےلوگ اس کا بڑا زور
دار استقبال کرتے اور نعرے لگاتے: بادشاہ سلامت! بادشاہ سلامت! پھر اسے ایک سال کے
لئے اپنا بادشاہ بنالیتے۔چنانچہ ایک دن دُور دَرَاز کے علاقے سے ایک نوجوان اس شہر
میں داخل ہوا، لوگوں نے اسے دیکھا تو بادشاہ سلامت بادشاہ سلامت کے نعرے لگاتے ہوئے
اسے شہر میں لے گئے اور بادشاہ کی کُرسی پر بٹھادیا، نوجوان کو جب کچھ سکون ملا تو
اس نے پوچھا: مجھ سے پہلے جو بادشاہ تھا
اس کا کیا ہوا؟ لوگوں نے کہا: سال کےآخرمیں اس شہر میں پہلی مرتبہ داخل ہونےوالے
اجنبی انسان کو ہم صرف ایک سال کے لئے بادشاہ بناتے ہیں اور سال گزرنے کے بعد یہاں
سے دور ایسے جنگل میں چھوڑ آتے ہیں جہاں وہ اگر بھوک سے نہ بھی مرے تو وہاں کے
سانپ، بچھو اور درندے اسے مار ڈالتے ہیں اور اس طرح وہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ نوجوان نے
جب یہ سنا تو بہت خوف زَدَہ ہوا لیکن پھر خود کو سنبھالتے ہوئے کہا: مجھے وہ جگہ
دکھائیں جہاں پر آپ ہر بادشاہ کو ایک سال بعد چھوڑ کر آتے ہیں چنانچہ لوگ اسے وہاں
لے گئے اس جگہ کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد اس نے اپنی ایک سال کی بادشاہت میں
اس شہر میں بہت اچھے اچھے کام کئے، لوگوں کو ہر طرح کا آرام پہنچایا اور شہر سے لے کر اسی جنگل تک ایک خوب صورت شاہراہ( سڑک) تیار کرائی
اوراس کے کناروں پر بہت ساری کھانے پینے کی دکانیں بنوائیں اور دور دراز سے لوگوں
کو لاکر یہاں بسادیا وہ جنگل جسے دیکھ کر لوگوں کو ڈر لگتا تھا اب ایک خوب صورت
شہر بن چکا تھا جسے دیکھنے کے لئے لوگ دُور دور سے آنے لگے جب اس کی بادشاہت کا ایک
سال مکمل ہوا تو اس نے کہا : مجھے بھی وہاں چھوڑ آؤ جہاں تم لوگ دوسرے بادشاہوں کو چھوڑ کر آتے تھے تو لوگوں نے
کہا: آج سے آپ ہمارے مستقل بادشاہ ہیں ہم وہاں ان بادشاہوں کو چھوڑ کر آتے
تھے جو اپنی ایک سال کی بادشاہت کی خوش حال زندگی پاکر بعد کی زندگی کو بھول جاتے
تھے کہ انہیں وہاں بھی جانا ہے جہاں کوئی انسان نہیں ہے صرف سانپ بچھوؤں اور درندوں کا ٹھکانہ ہے جبکہ آپ اپنی ایک سالہ بادشاہت میں بعد کی زندگی
کو نہیں بُھولے اور اس کے لئے پہلے ہی سے سارے
انتظامات کر لئے ہیں۔ آپ عقل مند اور دُور اَندیش انسان ہیں اس لئے
اب آپ ہی ہمارے بادشاہ رہیں گے۔
پیارے بچو! ہم نے اس واقعہ سے سیکھا کہ دنیا کی زندگی کی مُدّت چند سال ہے اور آخرت کی
زندگی ہمیشہ رہنے والی ہے۔ آخرت کی زندگی اسی شخص کی اچھی رہے گی جو یہاں نیک عمل
کرے گا اس کا فائدہ اسے قبر میں، میدانِ محشر میں، جنّت میں ہر جگہ نظر آئے گا اور
اگر دنیا کی زندگی کو اچھا نہ بنایا نیک کام نہ کئے تو
اس کے نقصانات قبر، میدانِ محشر، دوزخ ہر جگہ تکلیف وعذاب کی صورت میں برداشت کرنے
ہوں گے۔ عَقْل مَنْد وہ ہے جو اس تھوڑی سی زندگی کو اچھے کاموں میں گزارے تاکہ بعد
کی زندگی جو ہمیشہ کے لئے ہے وہ اچھی اور عمدہ رہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…محمد گل ریز رضا مصباحی
٭…مدرس جامعۃ المدینہ ،ناگپور ہند
Comments