اعلیٰ حضرت، امامِ اہلِ سنّت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی کئی تحریروں میں جابجا ”فضائلِ صَحابہ و اہلِ بیت“ موتیوں کی طرح جگمگا رہے ہیں،اِن نثرپاروں کا اسلوب نہایت دلکش اور متأثر کُن ہے جنہیں سمجھ کر پڑھنے والے کوکئی انمول موتی ملتے ہیں آئیے! امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ان نثرپاروں سے منتخب ”شانِ اہلِ بیت و صحابہ“ ملاحظہ کرتے ہیں:
شانِ اہلِ
بیت ِ اَطہار
امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کے اندازِ تحریر کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ عقیدے کی وضاحت نہایت عقیدت سے کرتے ہیں،آنے والی سُطُور میں دیکھئے کہ صَحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کا مقام و مرتبہ بیان کرنے کے ساتھ ساتھ شانِ اہلِ بیتِ اطہار کس خوب صورت انداز میں بیان فرمائی ہے، چنانچہ آپ تحریر فرماتے ہیں:ان (مقرب ترین فرشتوں اور مرسلین ملائکہ یعنی جبرائیل و میکائیل و اسرافیل و عزرائیل علیہمُ السَّلام اور عرشِ مُعلّٰی کو اُٹھانے والے فرشتوں) کے بعد اَصحابِ سیِّدالمرسَلین (رسولوں کے سردار کے صحابہ) صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وعلیہم اجمعین ہیں اور اُنہیں میں حضرت بَتُول، جگر پارۂ رسول، خاتونِ جہاں، بانویٔ جِناں، سیدۃُ النِّسَاء فا طِمہ زَہرا (شامل) اور اس دو جہاں کی آقا زادی کے دونوں شہزادے، عرش کی آنکھ کے دونوں تارے، چرخِ سِیادت کے مَہ پارے، باغِ تَطْہِیر کے پیارے پھول، دونوں قرۃُ عَیْنِ رسول، اِمامینِ کَرِیمَین سَعِیدَین شَہِیدَین تَقِیَّیْن نَقِیَّیْن (پاک دامن،پاک باطن) نَیِّرَین طاہِرَین (سورج اور چاند کی طرح چمکتے دمکتے چہرے والے) ابو محمد (حضرت امام) حسن و (حضرت امام) ابو عبد اللّٰہ حسین اور تمام مادَرانِ اُمّت، بانْوَانِ رِسالت (اُمَّہاتُ المؤمنین، ازواجِ مطہرات) علی المصطفٰی وعلیہم کلہم الصَّلاۃ وَالتّحیۃ داخل کہ صَحابی ہر وہ مسلمان ہے جو حالتِ اسلام میں اس چہرۂ خدا نُما (اللّٰہ کے بارے میں بتانے والے کے چہرے) کی زیارت سے مُشَرَّف ہوا اور اسلام ہی پر دنیا سے گیا، ان کی قَدْر و منزِلت وہی خوب جانتا ہے جو سیِّدُ المُرسَلِین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کی عزت و رِفعت سے آگاہ ہے۔(دس عقیدے، ص180)
ساداتِ کرام کی عظمت پر اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کا اندازِ استدلال ملاحظہ کیجئے: جب عام صالحین کی صلاح (نیکی) ان کی نسل و اولاد کو دین و دنیا و آخرت میں نفع دیتی ہے تو صدیق و فاروق و عثمان و علی و جعفر و عباس و انصار کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی صلاح کا کیا کہنا۔ جن کی اولاد میں شیخ، صدیقی و فاروقی و عثمانی و علوی و جعفری و عباسی و انصاری ہیں۔ یہ کیوں نہ اپنے نسبِ کریم سے دین و دنیا و آخرت میں نفع پائیں گے! پھر اللہُ اکبر حضرات علیہ سادات کرام۔ اولادِ امجاد حضرت خاتونِ جنّت بتول زہرا کہ حضور پُرنور سیّدالصَالحین، سیّد العَاِلمین، سیّدالمرسلین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے بیٹے ہیں کہ ان کی شان تو ارفع و اعلیٰ و بلند و بالا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ فرماتا ہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ اَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ(۳۳)اللہ یہی چاہتا ہے تم سے ناپاکی دُور رکھے اے نبی کے گھر والو، اور تمھیں سُتھرا کردے خوب پاک فرماکر۔(پ22، الاحزاب: 33)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)(فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص243، 244) ایک مقام پر فرماتے ہیں:پھر اُن (امام حسن و حسین) سے نسل چلی وہ بھی وہ پاک نونہال ہیں جنہیں آبشار وَ یُطَهِّرَكُمْ تَطْهِیْرًاۚ سے پانی ملا اور نسیمِ اَخْرَجَ مِنْکُمَا کَثِیْرًا طَیِّبًا (تم دونوں سے بہت سی طیب اولاد پیدا کرے) نے نشوونُما دیا سبحانَ اللہ وہ برکت والی نسل جس کے منتہیٰ حُضور سیّد الانبیاء علیہ التحیۃ و الثناء اور وہ شجرہ طیبہ جس کی توقیع مدح اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴) (تَرجَمۂ کنزُ الایمان:جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں۔(پ13،ابراھیم:24))(مطلع القمرین،ص61)
دفاعِ اہلِ بیت سے متعلق دلائل سے بھرپوراپنے رسالے کے
اختتام پر فرماتے ہیں:خدمت گاریِ اہلِبیتِ مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے لئے یہ بیان ایک رسالہ ہوگیا لہذا بلحاظِ تاریخ اس کا
نام اِرَاءَۃُ
الْاَدَبْ لِفَاضِلِ النَّسَبْ رکھنا
اَنْسَب (زیادہ مناسب)۔(فتاویٰ رضویہ،ج 23،ص255)
صحابَۂ
کرام علیہمُ
الرِّضوان کی عظمتوں کا بیان
امامِ اہلِ سنّت کی تحریروں میں ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان کے آگے پیدا ہونے والے شبہات اور سوالات خود بہ خود دَم توڑ دیتے ہیں، ان سطور میں دیکھئےکہ”صحابَۂ کرام عظیم کیوں؟“ کا کس قدر جامع جواب دیا ہے:حکمتِ الٰہیہ نے صحبت و نیابت سیّدُالمرسلین خاتم النبیین محمد مصطفےٰ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کے لیے وہ لوگ پسند فرمائے جو بہترینِ عالَم (دنیا کے بہترین افراد) تھے اور نفوسِ قدسیہ اُن کے فضائلِ محمودہ (پسندیدہ فضیلتوں) میں سب سے اعلیٰ و اکرم، تربیتِ ربانی نے انہیں اس خوبی سے سنوارا کہ شریعت غرائے بیضائے سیّدالانبیاء صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم کا بارِگراں (انبیا کے سردار کی روشن شریعت کا بھاری بوجھ) جسے قولِ ثقیل (بھاری بات) سے تعبیر فرماتے ہیں (اِنَّا سَنُلْقِیْ عَلَیْكَ قَوْلًا ثَقِیْلًا(۵)تَرجَمَۂ کنزُالایمان:بے شک عنقریب ہم تم پر ایک بھاری بات ڈالیں گے)(اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں)اپنے دوشِ ہمت (ہمت کے کندھے) پر اٹھا لیا اور باحسن وجوہ (عمدہ طریقوں سے) اس کی ترویج و تبلیغ کو انجام دیا، اپنے مولیٰ و آقا (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی عادتیں اختیار کرنا اور اُن کی چال چلنا ایسا سکھایا کہ سراپا اُن کا آفتابِ رسالت کے رنگ میں رنگ گیا اور ہر رگ و ریشہ گل اصطفا کی بُو (ہر نَس چُنے ہوئے پھول کی خوشبو) سے مہک اُٹھا، اثر اُن کے تخلُّق و تعلُّم عادات کا (اخلاق اپنانے اور عادتیں سیکھنے کا اثر) ہمیشہ باقی رہے گا اور نور اخلاقِ مصطفائی کا (مصطفےٰ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اخلاق کا نور) عالَم سے کبھی مَحو (ختم) نہ ہوگا۔(مطلع القمرین،ص45)
طبیعتیں
ایک جیسی کیوں نہیں؟
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب تمام صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان درسگاہِ نبوت کے تربیت یافتہ ہیں تو سب کی طبیعتیں ایک جیسی کیوں نہیں؟ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اس پر یوں روشنی ڈالتے ہیں:اس میں شک نہیں کہ صحابۂ سرورِ عالَم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم، بعد انبیاء و مرسلین کے ”خَیْرُ الْخَلْق وَ اَفْضَلُ النَّاس“ (یعنی مخلوق میں بہترین اور لوگوں میں افضل ترین) تھے مگر جبکہ منظورِ الٰہی تھاکہ شریعتِ محمدیہ علیہ افضل الصلٰوۃ و التحیۃ قوم دون قوم یا یوم غیر یوم (یعنی کسی مخصوص قوم یا دن) سے خاص اور بعثتِ والا کسی زمان و مکان پر مُقْتَصَر (محدود) نہ ہو اور پُر ظاہر کہ قلوبِ ناس (لوگوں کے دل) قبولِِ نَصْح و استفادہ و اِسْترشاد (نصیحت قبول کرنے اورفائدہ و ہدایت حاصل کرنے) میں مختلف ہوتے ہیں، بعض پر نرمی سریعُ الاَثَر (جلدی اثر انداز) ہوتی ہے اور بعض بشدت و سختی مانتے ہیں۔ لہذا حکمتِ الٰہیہ مقتضی ہوئی کہ حاملانِ شریعت و نائبانِ رسالت ایک رنگ پر نہ ہوں، کسی کے سر پر ”اَرْحَمُ اُمَّتِی بِاُمَّتِی“ (میری اُمّت میں سے میری اُمّت پر زیادہ رحم کرنے والے) کا تاج رکھا جائے اور کوئی ”اَشَدُّھُم فِیْ اَمْرِ اللہ“(حکمِ الٰہی کے نفاذ میں اُن میں سب سے سخت تر) کا خطاب پائے۔(مطلع القمرین،ص47) ان چند جملوں میں امامِ اہلِ سنّت نے شریعتِ محمدی کی خصوصیت کے ساتھ اُس کے نفاذ کے لئے درکار مختلف طبیعتوں کو کس قدر خوب صورت انداز میں بیان کیا ہے کہ زبان پر بے ساختہ سُبحٰنَ اللہ آجاتا ہے۔
چند
صَحابَۂ کرام علیہمُ
الرِّضوان کے مخصوص فضائل:
یوں تو تمام صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کو ربِّ کریم نے قراٰنِ مجید میں اپنی رضا کا مُژدہ سنایا اور جنّت کا وعدہ فرمایا ہے مگر کئی صحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان کے خصوصی فضائل انہیں دیگر سے ممتاز کرتے ہیں، اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے ان میں سے چند کو بطورِ مثال بیان فرمایا ہے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کے مختصر اور جامع اندازِ تحریر کا نظارہ کیجئے:(1)اوّل تِیر کہ راہِ خدا میں پھینکا گیا سیّدُنا سعد بن ابی وقاص کا تھا (2)اور سیّدُالعالمین صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے انہیں اور حضرت زبیر بن العَوام کو تشریفِ ”فِدَاکَ اَبِی و اُمُّی“ سے مشرف فرمایا (نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ان دو مبارک ہستیوں سے فرمایا: میرے ماں باپ تم پر قربان) (3)حواری حُضور کے حضرت زبیر ہیں (4)حضرت عبداللہ بن عباس دو بار رؤیتِ جبریل علیہ الصَّلٰوۃ وَالسَّلام سے ممتاز (5)”سیّدُنا“ و ”ابنِ سیّدُنا“ اُسامہ بن زید بن حارثہ کی نسبت ارشاد ہوا:مجھے سب سے زیادہ پیارا وہ ہے پھر علی (6)ابوذر سا راست گفتار زیرِ آسمان نہیں (حضرت ابو ذر جیسا صاف گو آسمان کے نیچے کوئی نہیں) (7)حُسنِ قراءت میں اُبَی بن کعب کو سب پر سبقت (ہے) (8)زید بن ثابت فرائض دانی (علمِ میراث میں ماہر) (9)معاذ بن جبل علمِ حلال و حرام میں فائق (10)ابوعُبَیدہ اس اُمّت کے امین (11)سعد بن معاذ کے انتقال سے عرشِ خدا ہِل گیا (12)اللہ تعالیٰ نے اُمُّ المؤمنین خدیجہ کو سلام کہلا بھیجا (13)سیّدُنا ابو موسیٰ کو مِزمارِ آلِ داؤد (یعنی حضرت داؤد علیہ السَّلام کی خوش آوازی سے حصہ) عطا ہوا (14)حذیفہ صاحبِ اَسرار ہوئے (15)تمیم داری سے رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم نے قصہ جساسہ بلفظ حدثنا تمیم الداری (ہم سے تمیم داری نے بیان کیا) حکایت فرمایا اور (16)صدیق کا سَبّاق بِالْخَیْر (بھلائی میں سبقت کرنے والا) ہونا (17)(حضرت عمر) فاروق سے بکلمہ ”حَدَّثَنِی عمرُ“ (مجھ سے عمر نے بیان کیا) نقل کیا اور (18)حضرت جُلَیْبِیْب جب شہید ہوئے حُضوران کی نعش اپنے دستِ اقدس پر اُٹھا کر لے چلے اور ارشاد فرماتے تھے:جُلَیْبِیْب میرا اور میں جُلَیْبِیْب کا، جُلَیْبِیْب میرا اور میں جُلَیْبِیْب کا، جُلَیْبِیْب میرا اور میں جُلَیْبِیْب کا۔(مطلع القمرین،ص48)
”عظمتِ صحابہ“سے متعلق امام احمد رضا خان قادری رحمۃ اللہ علیہ کی یہ سُطُور نہایت اہمیت کی حامل ہیں:تابعین سے لے کر تابقیامت (قیامت تک) اُمت کا کوئی ولی کیسے ہی پایہ عظیم (بلند مرتبے) کو پہنچے، صاحبِ سلسلہ ہو خواہ غیر اِن کا (کوئی وَلی خواہ غوث ہو یا قطب یا ابدال وغیرہ، الغرض کسی بھی سلسلے سے ہو مثلاً قادریہ، چشتیہ، نقشبندیہ، سہروردیہ یا کسی بھی سلسلے سے نہ ہو)، ہرگز ہرگز ان میں سے ادنیٰ سے ادنیٰ کے رتبہ کو نہیں پہنچتا، اور ان میں ادنیٰ کوئی نہیں، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کے ارشادِ صادِق (سچے فرمان) کے مطابق اوروں کا کوہِ اُحد (اُحد پہاڑ) برابر سونا ان کے نیم صاع جَو کے ہمسر نہیں، جو قُربِ خدا اِنہیں حاصل دوسرے کو میسر نہیں اور جو درجاتِ عالیہ (بلند درجات) یہ پائیں گے غیر کو ہاتھ نہ آئیں گے، ان سب کو بِالْاِجمال پَرلے درجے (اعلیٰ درجے) کا ”بِرّ“ و”تَقی“ جانتے ہیں اور تفاصیلِ احوال پر نظر حرام مانتے، جو فعل کسی کا اگر ایسا منقول بھی ہوا جو نظرِ قاصر (صرف خامیاں دیکھنے والی آنکھ) میں ان کی شان سے قدرے گرا ہوا ٹھہرے، اسے مَحْمِلِ حَسَن (اچھے معنی) پر اُتارتے ہیں اور اللّٰہ کا سچا قول ( رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ ) سُن کر آئینۂ دل میں یک قلم زنگِ تفتیش کو جگہ نہیں دیتے (اللّٰہ کے فرمان:”اللّٰہ ان سے راضی ہوا“ سُن کر دل کے صاف ستھرے آئینے کو چھان بین کے زنگ سے آلودہ نہیں کرتے۔)، رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ وسلَّم حکم فرما چکے: ”جب میرے اصحاب کا ذکر آئے تو باز رہو۔“ ناچار اپنے آقا کا فرمانِ عالی شان اور یہ سخت وعیدیں، ہولناک تَہدیدیں سُن کر زبان بند کرلی اور دل کو سب کی طرف سے صاف کرلیا جان لیا کہ ان کے رُتبے ہماری عقل سے وَراء ہیں پھر ہم اُن کے معاملات میں کیا دَخل دیں، ان میں جو مشاجرات (باہمی رنجش) واقع ہوئے ہم ان کا فیصلہ کرنے والے کون؟(دس عقیدے ،ص182)
اَہلِ سُنَّت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور
نَجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسُولُ اللّٰہ کی(حدائقِ بخشش،ص153)
اللہ پاک کی ان پر رحمت ہو اور ان کے صدقے ہماری بےحساب مغفرت ہو۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…ابو
عاطر عطاری مدنی
٭…ذمّہ دار
شعبہ فیضان اولیا وعلما ، المدینۃ العلمیہ ،کراچی
Comments