علمائے کرام نے جہاں دیگر معاملاتِ زندگی میں ہماری تربیت فرمائی وہیں والدین کو بچّوں کے حُقوق اور ان کی تربیت کے حوالے سے بھی جابجا تربیتی نِکات (Points)سے نوازا ہے۔ ویسے تو بچّوں کے حقوق اور ان کی تربیت پر بہت سی مختصر اور تفصیلی کتابیں لکھی گئی ہیں مگر اس حوالے سے امامِ اہلِ سنّت اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے فتاویٰ رضویہ میں جو رسالہ ”مَشْعَلَۃُ الْاِرْشَادْ فِی حُقُوْقِ الْاَوْلَاد“([1]) تحریر فرمایا وہ انتہائی مختصر اور احادیثِ مُبارکہ کا نچوڑ ہے۔ ذیل میں اس رسالے سے ماں باپ کے لئے اولاد کے متعلق چند مُنتخب نِکات (Selected Points) پیشِ خدمت ہیں:
٭جب بچّہ پیدا ہو فوراً سیدھے کان میں چار بار اذان اور بائیں کان میں تین بار تکبیر کہیں تاکہ بچّہ شیطانی وسوسوں اور مِرگی سے محفوظ رہے ٭کسی عالمِ دین، بُزرگ یا نیک شخص سے گُھٹی دِلوائیں جس کا طریقہ یہ ہے کہ گُھٹی دینے والا چھوہارا یا کوئی اور میٹھی چیز چبائے اور پھر بچّے کے منہ میں ڈال کر تالو پہ مَل دے ٭ساتویں، نہ ہوسکے تو چودھویں ورنہ اکیسویں دن عقیقہ کریں ٭سر کے بال اُتروائیں ٭بالوں کے برابر چاندی تول کر خیرات کریں ٭سَر پر زعفران لگائیں ٭اچّھا نام رکھیں٭بچّہ جومانگے اچھے طریقے سے دیں ٭پیار میں بھی بُرے نام نہ رکھیں کہ جو نام ایک بار پڑ جائے وہ مشکل سے چُھوٹتا ہے ٭خدا کی اِن امانتوں کے ساتھ شفقت و محبّت کا برتاؤ رکھیں٭بہلانے کے لئے جُھوٹا وعدہ نہ کریں کیونکہ بچّوں سے بھی وہی وعدہ کرنا جائز ہے جس کو پورا کرنے کا ارادہ ہو ٭چند بچّے ہوں تو جو چیز دیں سب کو برابر دیں، ایک کو دوسرے
پر ترجیح (Priority) نہ دیں ٭سفر سے آئیں تو ان کے لئے کچھ تحفہ ضرور لائیں ٭زبان کھلتے ہی اللہ اللہ اور پھر پورا کلمۂ طیّبہ: ”لَآ اِلٰہ اِلَّا اللہُ مُحمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ“ سکھائیں ٭جب بچّوں کو کچھ سمجھ بُوجھ آنے لگے تو انہیں کھانے پینے، اُٹھنے بیٹھنے وغیرہ کے طور طریقے سکھانا شروع کردیں ٭قراٰنِ پاک مکمل پڑھ لینے کے بعد بھی تلاوت کرتے رہنے کی تاکید کریں ٭اسلامی عقائد سکھائیں کہ بچّہ فطرتاً دینِ اسلام اور حق بات قبول کرنے کے لئے پیدا کیا گیا ہے اس وقت کا بتایا پتھر پرلکیر کی طرح ہو گا ٭حضورِ اقدس رحمتِ عالم صلَّی اللہ علیہ وسلَّم کی محبّت و تعظیم ان کے دل میں ڈالیں کہ یہ اصلِ ایمان و عینِ ایمان ہے ٭بُزُرگانِ دین کی محبّت و عظمت کی تعلیم دیں کیونکہ یہ باتیں ایمان کی سلامتی کا ذریعہ ہیں ٭سات سال کی عمر سے نماز کی زبانی تاکید شروع کردیں ٭پڑھانے سکھانے میں نرمی رکھیں ٭مناسب موقع پر سمجھائیں مگر بَددُعا نہ دیں کیونکہ اس سے اور زیادہ بگاڑ کا اندیشہ ہے ٭پڑھائی کے زمانے میں ایک وقت کھیلنے کا بھی دیں تاکہ طبیعت میں نَشاط (Cheerfulness) باقی رہے ٭بُری صحبت میں ہرگز نہ بیٹھنے دیں کہ بُری صحبت زہریلے سانپ سے بھی زیادہ خطرناک ہے ٭کوئی ایسا کام کہنا ہو جس میں اندیشہ ہے کہ وہ نہیں مانے گا تو اسے حکم دینے کے انداز میں نہیں بلکہ نرمی کے ساتھ مشورہ دینے کے انداز میں کہیں تاکہ وہ نافرمانی کے گناہ سے محفوظ رہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج24،ص451تا455ملخصاً)
مولائے کریم ہمیں امامِ اہلِ سنّت رحمۃ اللہ علیہ کی تعلیمات کے مطابق اپنی اولاد کی تربیت کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…بلال حسین عطاری مدنی
٭…ماہنامہ فیضان مدینہ کراچی
Comments