نام و تعارف: اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا خدیجۃُ الکبریٰ رضی اللہ عنہا کے بعد سب سے پہلے قبولِ ایمان کا شرف پانے والی جلیلُ القدر صحابیہ ”حضرت سیّدَتُنا اُمِّ فَضل لُبابہ رضی اللہ عنہا“ ہیں۔ آپ رضی اللہ عنہا قریش کی فصیح اور شیریں گفتار خاتون تھیں۔ آپ کا نام لُبابہ بنتِ حارث، کنیت آپ کے بڑے بیٹے کی طرف نسبت کرتے ہوئے اُمِّ فضل جبکہ لقب کبریٰ ہے۔آپ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی چچی، اُمُّ المؤمنین حضرت سیّدَتُنا میمونہ بنتِ حارث رضی اللہ عنہا کی بہن اور امامُ المفسرین حضرت سیّدُنا عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کی والدہ ہیں۔(مراٰۃ المناجیح،اجمال ترجمہ اکمال،ج8،ص72) نکاح و اولاد: آپ رضی اللہ عنہا حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چچا حضرت سیّدُنا عباس بن عبدُالمطلب رضی اللہ عنہ کی زوجہ ہیں۔ آپ کی اولاد میں 6 لڑکے جن میں ترجمانُ القراٰن عبدُ اللہ ، عُبیدُ اللہ، مَعبد، قُثَم، عبدُالرّحمٰن، فَضل اور ایک لڑکی اُمِّ حبیبہ شامل ہیں ۔ رضوانُ اللہ علیہم اجمعین ایک مرتبہ حُضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کے یہاں رونق افروز ہوئے تو آپ رضی اللہ عنہ کو اور آپ کے بچوں کو چادر میں ڈھانپا اور دُعا کی:اے خدا! یہ میرے چچا اور میرے والد کے قائم مقام ہیں اور ان کے فرزندان میرے اہلِ بیت ہیں۔ ان سب کو آتشِ دوزخ سے ایسا چُھپا دے جیسے میں نے ان کو اپنی چادر میں چھپا لیا ہے۔( مدارج النبوۃ مترجم،ج2،ص579) کہا جاتا ہے کہ آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے آپ کے بطن سے ایسے 6 بیٹے پیدا ہوئے جو کسی اور عورت کو نصیب نہ ہوئے۔(تھذیب الاسماء واللغات،ج2،ص618) ہجرت: حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بعد جب حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فتحِ مکّہ کے لئے تشریف لا رہے تھے اس وقت آپ رضی اللہ عنہا نے اپنے گھر والوں کے ساتھ ہجرت کی۔ حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ حضورِاکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ساتھ لشکر میں شامل ہوگئے جبکہ حضرت سیّدَتُنا اُمِّ فَضل رضی اللہ عنہا اپنے عِیال کے ساتھ مدینۂ منوّرہ تشریف لے آئیں۔(مدارج النبوۃ مترجم،ج2،ص578) مبارک خواب: ایک دفعہ آپ رضی اللہ عنہا نے نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں عرض کی:یَارسولَ اللہ ! میں خواب دیکھتی ہوں کہ آپ کے اعضاء میں سے ایک عضو میرے گھر میں ہے۔ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : آپ نے بہت اچھا خواب دیکھاہے۔ فاطمہ کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوگا جسے آپ اپنے بیٹے قُثم کے ساتھ دودھ پلائیں گی۔ چنانچہ آپ رضی اللہ عنہا نے حضرت سیّدُنا امام حسین رضی اللہ عنہ کو دُودھ پلایا۔ (طبقاتِ ابن سعد،ج8،ص218) خدمتِ حدیث: حضرت سیّدَتُنا اُمِّ فَضل رضی اللہ عنہا کو احادیث روایت کرنے کا شرف بھی حاصل ہے۔ آپ نے نبیِّ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے30حدیثیں روایت کی ہیں۔ آپ سے روایت کرنے والوں میں حضرت عبدُ اللہ بن عباس، حضرت انس بن مالک اور حضرت عبدُ اللہ بن حارث رضی اللہ عنہم شامل ہیں۔ (سیر اعلام النبلاء،ج3،ص543) ذہانت: آپ رضی اللہ عنہا ذوق و شوقِ علمِ دین بھی رکھتی تھیں اور نہایت ذہین خاتون تھیں۔ حجۃُ الوداع کے موقع پر صَحابَۂ کرام علیہمُ الرِّضوان اس مسئلہ میں تشویش کا شکار ہوگئے کہ عَرَفہ یعنی 9ذو الحجۃ الحرام کے دن روزہ رکھا جائے گا یا نہیں؟ حضرت سیّدَتُنا اُمِّ فَضل بنتِ حارث نے اس مسئلے کا حل یوں نکالا کہ دودھ کا ایک پیالہ پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی خدمتِ اقدس میں بھیجا جسے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے ہی نوش فرما لیا۔(بخاری،ج 1،ص555،حدیث:1661) ذوقِ عبادت: حضرت سیّدَتُنا اُمِّ فضل رضی اللہ عنہا نہ صرف ابتدائے اسلام میں ایمان لانے والی تھیں بلکہ تقویٰ و پرہیز گاری جیسی عمدہ صفات سے بھی متصف تھیں۔ آپ کے بیٹے حضرت سیّدُنا عبدُ اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:(میری والدہ محترمہ) ہر پیر اور جمعرات کے دن روزہ رکھا کرتیں۔(طبقات ابن سعد،ج8،ص217) وفات: آپ رضی اللہ عنہا کی تاریخِ وصال ہمیں کتابوں میں نہیں مل سکی البتہ آپ نے حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے دورِ خلافت میں وفات پائی۔ اس وقت حضرت سیّدُنا عباس رضی اللہ عنہ حیات تھے۔ حضرت سیّدُنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ نے آپ کی نمازِ جنازہ پڑھائی۔(الثقات لابن حبان،ج1،ص430)
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…بنت ضیاء الفاروق چشتیہ
Comments