کسی کو بات سمجھانے کا ایک بہترین طریقہ مثال دینا بھی ہے۔ مثال دے کر بات سمجھانے سے سننے والے کو آسانی سے سمجھ بھی آتی ہے اور طویل عرصے تک یاد بھی رہتی ہے۔ مثال دے کر بات سمجھانے کا انداز نہ صرف قراٰن و حدیث بلکہ بزرگانِ دین کی سیرت میں بھی موجود ہے۔ اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سُنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے بھی اپنے کلام میں جابجا یہ دِل کَش اُسْلوب اپنایا ہے۔ گزشتہ سال(صفرالمظفر1440ھ) سوسالہ عُرسِ اعلیٰ حضرت کے موقع پر شائع ہونے والے خُصوصی شمارے ”فیضانِ امامِ اہلِ سُنّت“ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کی کتابوں سے22مثالیں پیش کی گئی تھیں۔ اب کلامِ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ سے مزید کچھ مثالیں پیشِ خدمت ہیں:
(1)شیشہ اور پتھر: طلاق دینے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے اگرچہ طلاق دینے والے کو یہ بات معلوم نہ ہو کہ میں طلاق دوں گا تو نکاح ٹوٹ جائےگا۔ امامِ اہلِ سنّت اس بات کو مثال سے سمجھاتے ہوئے فرماتے ہیں:شیشے پر پتّھر پھینکے شیشہ ضرور ٹوٹ جائے گا اگرچہ یہ نہ جانتا ہو کہ اس سے ٹوٹ جاتا ہے۔(فتاویٰ رضویہ،ج 21،ص216)
(2)مفتی کی ذمہ داری: اگر کوئی شخص اپنے گمان میں اپنے مسئلے کی نوعیت (قسم) کا غلط اندازہ لگالے اور پھر اس نوعیت کے بارے میں مفتی سے دریافت کرے، لیکن وہ مفتی مسئلے کی اصل نوعیت کو جانتا ہو تو اب مفتی کی ذمہ داری ہے کہ وہ اصل نوعیت کے مطابق حکمِ شرعی بیان کرے۔ اس بات کو امامِ اہلِ سنّت نے مثال کے ذریعے یوں بیان فرمایا:”ایک مریض نے براہِ ناواقفی اپنا مرض اُلٹا تشخیص کیا اور اس کے لئے طبیب سے دوا پوچھی، طبیب اگر اِس کا اصل مرض جانتا اور سمجھتا ہے کہ یہ دوا اُسے نافع (فائدہ مند) نہیں بلکہ اور مُضِر (نقصان دہ) ہوگی، تو اسے ہرگز حلال نہیں کہ اُلٹے مرض کی اسے دوا بتاکر اس کی غلطی کو اور جما دے اور اس کے ہلاک پر مُعِین (مددگار) ہو۔“(فتاویٰ رضویہ،ج 16،ص331)
(3)بندوں کے مطالبات: امامِ اہلِ سنّت کے والدِ ماجد مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ اپنی کتاب ”اَحْسَنُ الْوِعَاءِ لِآدَابِ الدُّعاءِ“([1])میں دُعا کا چھٹا (6) ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جن کے حقوق اس کے ذمہ ہوں، ادا کرے یا اُن سے معاف کرالے۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کتاب پر حاشیہ لکھا جس کا نام ”أحسن الوعاء لآداب الدعاء و ذیل المدعاء لأحسن الوعاء“ہے اس میں مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں:”خَلْق (یعنی بندوں) کے مطالبات گردن پر لے کر دعا کے لئے ہاتھ اٹھانا ایسا ہے جیسے کوئی شخص بادشاہ کے حضور بھیک مانگنے جائے اور حالت یہ ہو کہ چار طرف سے لوگ اِسے چمٹے داد و فریاد کا شور کر رہے ہیں، اسے گالی دی، اسے مارا، اس کا مال لے لیا، اسے لُوٹا، غور کرے اس کا یہ حال قابلِ عطا و نَوال (بخشش) ہے یا لائقِ سزا و نَکال (عذاب)!۔“(فضائلِ دُعا، ص60)
(4)پرندہ اور شہپر: مولانا نقی علی خان رحمۃ اللہ علیہ دُعا کا سترھواں (17) ادب بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:اوّل و آخر نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ وسلَّم اور ان کے آل و اصحاب پر دُرود بھیجئے۔ امامِ اہلِ سنّت نے اس ادب کی شرح میں دُعا کی مقبولیت کے لئے دُرود شریف کی اہمیت کو اس مثال سے بیان فرمایا: ”اے عزیز!دُعا طائر (پرندہ) ہے اور دُرود شہپر (یعنی پرندے کے بازو کا سب سے بڑا پَر)، طائر بے پَر کیا اُڑ سکتا ہے۔“(فضائلِ دُعا، ص68،69)
(5)مالکِ حقیقی: اللہ پاک تمام جہان کا مالک ہے، وہ جو چاہے کرے کسی کو اعتراض کا حق نہیں ہے۔ امامِ اہلِ سنّت نے اس بات کو سمجھانے کے لئے کتنی پیاری مثال بیان فرمائی ہے: ”زید نے روپے کی ہزار اینٹیں خریدیں، پانسو (500) مسجد میں لگائیں، پانسو (500) پاخانہ (یعنی استنجا خانہ Washroom) کی زمین اور قَدَمچوں میں۔ کیا اس سے کوئی اُلجھ سکتا ہے کہ ایک ہاتھ کی بنائی ہوئی، ایک مِٹّی سے بنی ہوئی ، ایک آوے (بھٹی) سے پکی ہوئی، ایک روپے کی مَول لی (یعنی خریدی) ہوئی ہزار اینٹیں تھیں، اُن پانسو (500) میں کیا خوبی تھی کہ مسجِد میں صَرف (استِعمال) کیں؟ اور اِن میں کیا عیب تھا کہ جائے نَجاست (نَجاست خانے) میں رکِھیں؟ اگر کوئی احمق اُس (اپنے پلّے سے اینٹیں خرید کر لگانے والے) سے پوچھے بھی تو وہ یہی کہے گا کہ میری مِلک (ملکیت) تھیں میں نے جو چاہا کیا۔“
مثال بیان کرنے کے بعد امامِ اہلِ سنّت فرماتے ہیں:”جب مَجازی جُھوٹی مِلک کا یہ حال ہے تو حقیقی سچی مِلک کا کیا پُوچھنا! ہمارا اور ہماری جان و مال اور تمام جہان کا وہ ایک اکیلا پاک نِرالا سچا مالک ہے۔ اُس کے کام، اُس کے احکام میں کسی کو مجالِ دَم زَدَن کیا معنی (یعنی کچھ کہنے کی طاقت بھی کیسے ہوسکتی ہے)! کیا کوئی اُس کا ہَمْسَر (یعنی برابر) یا اس پر افسر ہے؟ جو اس سے کیوں اور کیا کہے(ہرگز نہیں)! (وہ) مالِک عَلَی الْاِطلاق ہے، بے اشتراک (یعنی ہر چیز کا خود مالک ہے، کوئی شراکت دار نہیں) ہے، جو چاہا کیا اور جو چاہے کرے گا۔“(فتاویٰ رضویہ،ج 29،ص295 ملخصاً)
(6)سگانِ دُنیا کے امیدوار: دُعا کا اڑتالیسواں (48) ادب
بیان کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت کے والدِ ماجد فرماتے ہیں: دُعا کے قبول میں جلدی نہ کرے۔ دُعا کے اس ادب کو سمجھانے کے لئے امامِ اہلِ سنّت نے یہ مثال بیان فرمائی:”سگانِ دنیا (یعنی دنیا کے مالداروں اور حاکموں) کے اُمیدواروں کو دیکھا جاتا ہے کہ تین تین برس تک اُمیدواری میں گزارتے ہیں، صبح و شام اُن کے دروازوں پر دوڑتے ہیں۔ اور وہ ہیں کہ رُخ نہیں مِلاتے، بار نہیں دیتے، جھڑکتے، دِل تنگ ہوتے، ناک بھَوں چڑھاتے ہیں، امیدواری میں لگایا تو بیگار ڈالی، (یعنی حکمران اپنی رعایا کو جھڑک دیتے ہیں ان کے مسائل سننا گوارا نہیں کرتے یہاں تک کہ انہیں یہ موقع بھی نہیں دیتے کہ کوئی غریب آکر اپنا مسئلہ ہی بیان کرلے اور اگر کوئی غلطی سے ان تک رسائی حاصل کر لے تو اس کی فریاد سے تنگ دل ہوجاتے ہیں) یہ حضرت گِرہ (اپنے پَلّے) سے کھاتے، گھر سے منگاتے، بیکار بیگار کی بلاء اُٹھاتے ہیں اور وہاں برسوں گزریں ہنوز روزِ اوّل ہے (ذرا کام نہیں بنا اب تک پہلے دن کی طرح ہے) مگر یہ نہ امید توڑیں نہ پیچھا چھوڑیں اور اَحْکَمُ الْحَاکِمِین اَکْرَمُ الْاَکْرَمِین عَزَّ جَلَالُہ کے دروازے پر اوّل تو آتا ہی کون ہے؟ اور آئے بھی تو اکتاتے، گھبراتے، کَل کا ہوتا آج ہوجائے، ایک ہفتہ کچھ پڑھتے گزرا اور شکایت ہونے لگی، صاحب! پڑھا تو تھا کچھ اثر نہ ہوا۔ یہ احمق اپنے لیے اِجابت (قبولیت) کا دروازہ خود بند کرلیتے ہیں۔“(فضائلِ دُعا، ص97، 100)
پیارے اسلامی بھائیو! مشکل ترین علمی باتوں کو عام فہم مثالوں کے ذریعے سمجھانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں لیکن کیا شان ہے ہمارے اعلیٰ حضرت کی! عاشقِ اعلیٰ حضرت امیرِ اہلِ سُنّت علّامہ محمد الیاس عطّاؔر قادری دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ لکھتے ہیں:
اللہ اللہ تبحُّرِ عِلْمی
اب بھی باقی ہے خدمتِ قلمی
اہلِ سُنّت کا ہے جو سرمایہ
واہ کیا بات اعلیٰ حضرت کی
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
٭…محمد عباس عطاری مدنی
٭…شعبہ تراجم المدینۃ العلمیہ کراچی
Comments