مسجد کاادب

اسلام  ایسا کامل و مکمّل دین ہے جس کی تعلیمات زندگی کے تمام شعبوں کو گھیرے ہوئے ہیں۔مسجد کے ادب و احترام کی بھی اسلام میں خاص اَہَمِّیَّت ہے کیونکہ مسجد وہ جگہ ہے جہاں سے اسلامی تعلیمات کی کِرنیں چاروں جانب پھیلتی ہیں ، آئیے مسجد کے ادب و تعظیم کے متعلّق اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کا انداز ملاحَظہ فرمائیے:

مسجد میں کیسے داخل ہوں؟ مسجد میں داخل ہونے کے آداب بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مسجد کے ایک درجے سے دوسرے درجے کے داخلے کے وقت سیدھا قدم بڑھایا جائے حتی کہ اگر صف بچھی ہو اس پر بھی پہلے سیدھا قدم رکھو اور جب وہاں سے ہٹو تب بھی سیدھا قدم فرشِِ مسجد پر رکھو۔ (ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت،ص318)

ہر قدم دایاں: جناب سیّد ایّوب علی صاحب کا بیان ہے کہ ایک روز فریضۂ فجر ادا کرنے کے لیے خلافِ معمول کسی قدر آپ کو دیر ہوگئی، نمازیوں کی نگاہیں بار بار کاشانۂ اقدس کی طرف اٹھ رہی تھیں کہ عین انتظار میں جلدی جلدی تشریف لائے، اس وقت برادرم قناعت علی نے اپنا یہ خیال مجھ سے کہا کہ اس تنگ وقت میں دیکھنا یہ ہے کہ حضور(یعنی اعلی ٰ حضرت) دایاں (Right) قدم مسجد میں پہلے رکھتے ہیں یا بایاں(Left)! مگر قربان اس ذاتِ کریم کے کہ دروازۂ مسجد کے زینے پر جس وقت قدم مبارک پہنچتا ہے تو سیدھا، توسیعی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، قدیمی فرشِ مسجد پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، آگے صحنِ مسجد میں ایک صف بچھی تھی اس پر قدم پہنچتا ہے تو سیدھا، اور اِسی پر بس نہیں ہر صف پر تقدیم سیدھے ہی قدم سے فرمائی یہاں تک کہ محراب میں مصلیّٰ پر قدمِ پاک سیدھا ہی پہنچتا ہے۔ (حیاتِ اعلیٰ حضرت ،ج1،ص144مکتبۃ المدینہ)

ساری رات سخت سردی میں گزاری: ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ اپنی مسجد میں مُعتکف تھے، سردی کا مَوسِم، رات کا وقت، اس پر دیر سے سخت بارش ہورہی تھی۔ آپ کو نمازِ عشاء کے لئے وُضو کی فِکر ہوئی، بارش میں کس جگہ بیٹھ کر وضو کیا جائے، بالآخر مسجد کے اندر لحاف کی چار تہہ کرکے اِسی پر وُضو کیا لیکن ایک قطرہ بھی مسجد کے فرش پر نہ گِرنے دیا اور پوری رات اس انتہائی سردی اور بارش کے طوفان میں یوں ہی بیداری کی حالت میں کانپتے ہوئے گزار دی۔ (حیات اعلیٰ حضرت،ج1،ص146، مکتبۃ المدینہ ، ملخصاً)

مسجد کے ادب کی تلقین: اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نہ صرف خود مسجد کا ادب کیا کرتے بلکہ دوسروں کو بھی اس کی تلقین فرمایا کرتے تھے۔ ایک صاحب جنہیں نواب صاحب کہا جاتا تھا، مسجد میں نماز پڑھنے آئے اور کھڑے کھڑے بے پرواہی سے اپنی چَھڑی مسجد کے فرش پر گِرادی جس کی آواز حاضرین نے سُنی۔ اعلیٰ حضرت نے فرمایا: ”نواب صاحب! مسجد میں زور سے قدم رکھ کر چلنا منع ہے، پھر کہاں چَھڑی کو اتنی زور سے ڈالنا!“ نواب صاحب نے وعدہ کیا کہ اِنْ شَآءَ اللہ آئندہ ایسا نہیں ہوگا۔ (اعلیٰ حضرت کی انفرادی کوششیں، ص 35ملخصاً)

مسجد میں چلنے میں کمال درجہ احتیاط: اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرشِ مسجد پر ایڑھی اور انگوٹھے کے بَل چلا کرتے تھے اور دوسروں کو بھی نصیحت کرتے کہ مسجد کے فرش پر چلتے ہوئے آواز پیدا نہیں ہونی چاہیے۔ (حیات اعلیٰ حضرت،ج3،ص86،مکتبۃ المدینہ )

مسجد میں قبلہ کا ادب: بعض اوقات اَوْرَاد و وَظائف مسجد شریف ہی میں چلتے ہوئے شمالاً جُنوباً پڑھا کرتے مگر مسجد کے فرش کے آخر سے واپسی ہمیشہ قِبلہ رُو ہوکر ہی ہوتی، کبھی پُشْت کرتے ہوئے کسی نے نہ دیکھا۔(حیات اعلیٰ حضرت،ج 1،ص146 ، مکتبۃ المدینہ ، ملخصاً)

چراغ اورمسجدکا ادب: ایک مرتبہ برسات کا مَوسِم تھا عشاء کے وقت ہوا کے تیز جھونکے مسجد کے کڑوے تیل(جس کی بو نہیں ہوتی اس) کا چراغ بار بار بُجھا دیتے تھے، جس کے روشن کرنے میں بارش کی وجہ سے سخت پریشانی ہوتی تھی اور اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اس زمانے میں ناروے کی ماچس استعمال کی جاتی تھی جس کے روشن کرنے میں گندھک کی بدبُو نکلتی تھی اس لئے اسے مسجد کے باہر جَلانے کا حکم تھا، لہٰذا اس تکلیف کی مدافَعت (یعنی اسے دور کرنے کی تدبیر)امامِ اہلِ سنّت کے خادمِ خاص حاجی کفایتُ اللہ صاحب نے یہ کی، کہ ایک لالٹین میں معمولی چار شیشے لگوا کر کُپّی(چھوٹی سی چرمی شیشی) میں اَرَنْڈی کا تیل (کسٹرآئل) ڈالا اور روشن کرکے آپ کے ساتھ ساتھ مسجد کے اندر لے جاکر رکھ دی۔ تھوڑی دیر ہوئی تھی کہ اعلیٰ حضرت(رحمۃ اللہ علیہ) کی نظر اس پر پڑی،اِرشاد فرمایا: حاجی صاحب! آپ نے یہ مسئلہ بارہا سُنا ہوگا کہ مسجد میں بدبُو دار تیل نہیں جَلانا چاہیے! انہوں نے عرض کیا: حضور! اس میں اَرَنْڈی کا تیل (کسٹرآئل) ہے۔فرمایا: راہگیر دیکھ کر کیسے سمجھیں گے کہ اس لالٹین میں اَرَنْڈی کا تیل (کسٹرآئل) جَل رہا ہے وہ تو یہی کہیں گے کہ دوسروں کو تو فتویٰ دیا جاتا ہے کہ مٹّی کا بدبُو دار تیل مسجد میں نہ جَلاؤ اور خود مسجد میں لالٹین جَلْوا رہے ہیں، ہاں اگر آپ برابر اس کے پاس بیٹھے ہوئے یہ کہتے رہیں: کہ اس لالٹین میں اَرَنْڈی کا تیل ہے، اس لالٹین میں اَرَنْڈی کا تیل ہے، تو مُضائقہ نہیں۔ چنانچہ حاجی صاحب نے فوراً اس لالٹین کو بُجھاکرمسجد سے باہر کردیا۔(حیات اعلیٰ حضرت ،ج1،ص150مکتبۃ المدینہ ، ملخصاً)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاویٰ رضویہ شریف میں مٹّی کا تیل مسجد میں لے جانے کے متعلّق فرماتے ہیں: مٹّی کے تیل میں سخت بد بُو ہے اور مسجد میں بدبُو کا لے جانا کسی طرح جائز نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ،ج8،ص 102)

اللہ پاک امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کے ادب کے صدقے ہمیں بھی ادب کی دولت سے سرفراز فرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

٭…خضر حیات عطاری مدنی 

٭…مدرس جامعۃالمدینہ ،ملتان


Share