تَوَجُّہ اِلَی اللہ

Book Name:تَوَجُّہ اِلَی اللہ

میں کوئی کمی رہنے نہیں دیتے تھے مگربادشاہ کو اپنے ایک غُلام سے بہت محبّت تھی ، اس پر عنایات بھی زیادہ ہوا کرتی تھیں ، یہ بات دوسرے غُلاموں کوبُری لگتی تھی ، ایک روز ان سب نے ہمت کر کے بادشاہ کو کہہ ہی دیا ، بولے : بادشاہ سلامت ! کیا وجہ ہے کہ آپ اس غُلام سے زیادہ محبّت کرتے ہیں ، اس پر عنایات بھی زیادہ فرماتے ہیں ؟ بادشاہ سلامت مُعاملہ سمجھ گئے ، بولے : ہمیں ایک سَفَر درپیش ہے ، سب تیاری کریں ، ہم جلد ہی سَفَر پر جا رہے ہیں۔ تیاریاں شروع ہوئیں ، بادشاہ سلامت کے حُضُور سواری پیش کی گئی ، سب غُلام بھی ساتھ ہو لئے اور بادشاہ سلامت سب غلاموں کو ساتھ لے کر سَفَر پر روانہ ہو گئے ، چلتے گئے ، چلتے گئے۔ ایک مقام پر جا کر دُور کہیں برفانی پہاڑ نظر آیا ، پُورا پہاڑ برف سے ڈھکا ہوا تھا ، بڑا خوبصُورت منظر تھا ، بادشاہ سلامت رُک گئے ، بادشاہ کے ادب میں غُلاموں نے بھی سُواریاں روک لیں مگر وہ غُلام جو بادشاہ کا منظورِنظر تھا ، اس نے اپنا گھوڑادوڑا دیا ، سب حیران تھے کہ اسے کیا ہوا ؟ یہ کہاں جا رہا ہے ؟ کچھ ہی دَیر بعد وہ غُلام واپس پہنچا ، اس کے ہاتھ میں اسی پہاڑ پر پڑی ہوئی کچھ برف تھی۔ بادشاہ سلامت نے گرج کر پوچھا : تم کہاں گئے تھے ؟ یہ برف کیوں لائے ہو ؟ غُلام نے عَرض کیا : بادشاہ سلامت ! آپ نے اس پہاڑ کو نظر بھر کر دیکھا تھا اور میں جانتا ہوں کہ آپ بِلاوجہ کسی چیز کونظر بھر کر نہیں دیکھتے ، لہٰذا میں سمجھ گیا کہ آپ برف حاصِل کرنا چاہتے ہیں۔ اس پر بادشاہ نے دوسرے غُلاموں کومخاطب کر کے کہا : اس میں اور تم میں یہ فرق ہے ، تمہاری توجہ کاموں کی طرف ہوتی ہے مگر اس کی تَوَجُّہ کا مرکز میں ہوں ، یہ ہر چیز سے کٹ کرہر وقت میری جانِب مُتَوجّہ رہتا ہے۔  ( [1] )    

  اے عاشقانِ رسول !  یہ ہے حقیقی بندگی... ! !  ہم بندے ہیں ، بندے کا کام ہوتا ہے


 

 



[1]... رسالہ قشیریہ ، باب المراقبہ ، صفحہ : 225-226خلاصۃً۔