Book Name:تَوَجُّہ اِلَی اللہ
زیادہ سوگ منانا شرعاً جائِز نہیں ہے مگر خوشی کے وقت گُنَاہوں کا بازار گرم کرنا بھی شریعت نے منع کیا ہے۔ ہم کیوں خوشیوں میں اپنے رَبّ کو بھول جاتے ہیں ؟ شادِی بیاہ پر ، عید تہوار پر ، بچوں کی سالگرہ کے وقت ہمیں شریعت کی تعلیمات کیوں یاد نہیں رہتیں... ؟
اللہ پاک قرآنِ کریم میں فرماتا ہے :
وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْۢبِهٖۤ اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآىٕمًاۚ-فَلَمَّا كَشَفْنَا عَنْهُ ضُرَّهٗ مَرَّ كَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَاۤ اِلٰى ضُرٍّ مَّسَّهٗؕ ( پارہ11 ، سورۂ یونس : 12 )
ترجَمہ کنزُ العرفان : اور جب آدمی کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹے ہوئے اور بیٹھے ہوئے اور کھڑے ہوئے ( ہر حالت میں ) ہم سے دعا کرتا ہے پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کر دیتے ہیں تو یوں چل دیتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں پکارا ہی نہیں تھا
تفسیر صراطُ الجنان میں ہے : یعنی کافر کو جب تکلیف پہنچتی ہے تو وہ لیٹے ، بیٹھے ، کھڑے ہر حال میں ہم سے دعا کرتا ہے اور جب تک اُس کی تکلیف زائل نہ ہو دعا میں مشغول رہتا ہے ، پھر جب ہم اس کی تکلیف دور کردیتے ہیں تووہ ہم سے منہ موڑ کر اپنے پہلے طریقہ پر چل دیتا ہے اور وہی کفر کی راہ اِختیار کرتا ہے اور تکلیف کے وقت کو بھول جاتا ہے گویا کبھی کسی تکلیف کے پہنچنے پر اس نے ہمیں پکارا ہی نہیں تھا۔
اس آیت سے مقصود یہ ہے کہ اِنسا ن مصیبت کے وقت بہت ہی بے صبرا ہے اور راحت کے وقت نہایت ناشکرا ، جب تکلیف پہنچتی ہے تو کھڑے ، لیٹے ، بیٹھے ہر حال میں دعا کرتا ہے اور جب اللہ پاک تکلیف دور کردے تو شکر بجانہیں لاتا اور اپنی سابقہ حالت کی طرف لوٹ جاتا ہے۔ یہ حال غافل کا ہے ۔ عقلمند مومن کا حال اس کے خلاف ہے وہ