Book Name:Sahaba Ki Aik Khobsorat Tamanna
دربار میں داخِل ہوئے ، بڑا سا جُبّہ پہنا ہے ، سر پر بھاری دستار باندھی ہے ، پیچھے پیچھے غُلاموں کی ایک قطار ہے ، جنہوں نے سَر پر کافی ساری دوائیاں اُٹھا رکھی ہیں۔ طبیب صاحِب نے بادشاہ کی خِدْمت میں سلام عرض کیا ، اَدَب سے ہاتھ چومنے لگاتو بادشاہ سلامت مسکرا دئیے اور فرمایا : میں نے تمہیں پہچان لیا ہے ، تم طبیب نہیں ، وہی بہروپئے ہو۔ اتنا سننا تھا کہ بیچارہ بہروپیا شرمندہ ہوا اور دوبارہ کوشش کرنے کا کہہ کر چلا گیا۔
کچھ دِن گزرے عیدُ الْفِطر کا دِن آیا ، عِیْد کی نماز کے بعد دربار لگایا گیا ، بادشاہ سلامت تخت پر تشریف فرما ہوئے ، اردگرد کے ملکوں سے آئے ہوئے تحفے بادشاہ سلامت کی خِدْمت میں پیش ہونا شروع ہوئے ، اسی دوران ایک شخص آ گے بڑھا ، عرض کیا : عالی جاہ ! میں فُلاں مُلْک کا قاصِد ہوں ، ہمارے بادشاہ سلامت نے آپ کے لئے ایک انمول ہیرا تحفے میں بھیجا ہے ، یہ کہہ کر اُس نے تحفے کا ڈِبَّہ کھولا اور بادشاہ سلامت کے سامنے کر دیا۔ بادشاہ اورنگ زیب رَحمۃُ اللہ علیہ پھِر مسکرائے اور فرمایا : اس بار بھی میں نے تمہیں پہچان لیا ہے ، تم وہی بہروپئے ہو۔ بیچارے کو پھِر بڑی شرمندگی ہوئی ، اس نے دِل ہی دِل میں پکّا ارادہ کر لیا کہ اس بار میں ایسا رُوپ دھاروں گا کہ بادشاہ سلامت ہرگز مجھے پہچان نہیں پائیں گے۔
اس واقعے کو کافِی دِن گزر گئے ، پھِر ایک دِن بادشاہ سلامت لشکر لے کر جنگ کے لئے روانہ ہوئے ، بادشاہ اورنگ زیب رَحمۃُ اللہ علیہ خُود بھی اللہ پاک کے نیک بندے تھے اور انہیں اولیائے کرام سے عقیدت بھی بہت تھی ، بادشاہ سلامت لشکر کے ساتھ سفر پر تھے ، راستے میں جہاں جہاں کسی ولئ کامِل کا مزار آتا ، بادشاہ سلامت لشکر کو روکتے ، مزار شریف