Book Name:Shahadat e Usman e Ghani

آجائے، لَا حَاجَۃَ لَنَا فِی اِہْرَاقِ الدِّمَاءِ ہمیں خُون بہانے کی حاجت نہیں ہے۔

دَاتا حُضُور یہ روایت لکھنے کے بعد فرماتے ہیں: حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ کی سیرتِ پاک کا یہ والا پہلو کہ باغی گھیراؤ کئے ہوئے ہیں، آپ سے مدد کی اِجازت چاہی جاتی ہے، عرض کیا جاتا ہے: اجازت دیجئے! ہم اِن باغیوں کو اَنْجام تک پہنچا دیں گے، آپ پِھر بھی کوئی اِقْدام نہیں کرتے، تقدیر پر راضی رہتے ہیں، آپ کی سیرتِ پاک کا یہ پہلو  وہ ہے جو اللہ پاک کے نبی حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام سے کمال مُشابہت رکھتا ہے، وہ وقت بھی تھا کہ حضرت ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام کو آگ میں ڈالا جا رہا تھا، جبریلِ امین عَلَیْہ ِالسَّلام حاضِر ہوتےہیں، عرض کرتے ہیں: اے ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام! کوئی حاجَت ہو تو فرمائیے! فرمایا: حاجَت تو ہے تم سے نہیں ہے، عرض کیا: جس سے حاجَت ہے اُسی سے عرض کیجئے! فرمایا: اللہ پاک جانتا ہے، میرے مانگنے کی حاجَت نہیں ہے۔

دَاتا حُضُور فرماتے ہیں: وہ حضرت اِبْراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام تھے جو تسلیم و رضا کے اتنے بلند مقام پر پہنچے ہوئے تھے، جبریل عَلَیْہ ِالسَّلام مدد کے لئے حاضِر ہوتے ہیں، آپ مدد نہیں لیتے، اللہ پاک کی لکھی ہوئی تقدیر پر راضِی رہتے ہیں، اِدھر حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ  ہیں، مُشکل ہے، پریشانی ہے، امتحان ہے، حضرت مولیٰ علی، امامِ حسن مجتبیٰ رَضِیَ اللہ عنہما  مدد کےلئے آتے ہیں مگر حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ  ان کی مدد نہیں لیتے بلکہ اللہ پاک کی لکھی ہوئی تقدیر پر راضِی رہ رہے ہیں۔([1])  حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہ عنہ  کی یہی وہ عظیم شان ہے جس کو بیان کرتے ہوئے اللہ پاک کے آخری نبی، رسولِ ہاشمی صَلَّی اللہ علیہ وَآلہٖ و َسَلَّم  نے فرمایا: اِنَّا ‌نُشَبِّهُ عُثْمَانَ بِاَبِیْنَا اِبْرَاہِیْمَ بےشک ہم عثمان کو اپنے والِد ابراہیم عَلَیْہ ِالسَّلام کے


 

 



[1]...کشف المحجوب، صفحہ:86و87 خلاصۃً۔