Book Name:Kamil Momin Kon

کے اخلاق سب سے اچھے ہیں۔ ([1])

معلوم ہوا جس کے اَخْلاق جتنے زیادہ اچھے ہوں، اس کا ایمان اتنا ہی مضبوط اور کامِل ہوتا ہے۔ افسوس! اس معاملے میں تو آج مسلمان بہت ہی پیچھے ہیں۔ اَخْلاقیات کا سبق اَصْل میں اسلام نے دیا مگر ہم نے اَخْلاق چھوڑ دئیے! غیر قوموں نے ہمارے والے ہی اَخْلاق اپنا لئے۔ اب حالات یہاں تک پہنچے ہیں کہ ہم اپنے ہی اَخْلاق غیر قوموں سے سیکھتے ہیں، اُن سے کلاسیں لیتے ہیں، غیر قوموں کے اَخْلاق کی تعریف کرتے ہیں اور یہ بُھول گئے کہ اَصْل میں یہ ہمارا ہی وِرْثہ تھا، ہم نے نہیں اپنایا، دوسروں نے اپنا لیا، پِھر جنہوں نے اپنایا، وہ دُنیا میں ترقی کر گئے۔ ہم پیچھے رہ گئے۔

عدل ہے فاطِرِ  ہستی کا اَزَل کا دَسْتُور                           مُسْلِم آئیں ہوا کافِر تو مِلے حُور و قُصُور

کس کی آنکھوں میں سمایا ہے شعارِ اَغْیار              ہو گئی کس کی نگہ طرزِ سلف سے بیزار

قلب میں سوز نہیں، رُوح میں اِحْساس نہیں کچھ بھی پیغامِ مُحَمَّد  کا تمہیں پاس نہیں([2])

وضاحت: عدل و انصاف قُدْرت کا قانُون ہے، جب غیر مسلموں نے مسلمانوں والے طور طریقے، اَخْلاق اپنا لئے تو انہیں حُور و قُصُور  یعنی دنیا میں ترقی مل گئی۔ آہ! مسلمانوں کی آنکھوں میں غیروں کے طریقے سما گئے، یہ اپنے اَسْلاف اور بزرگوں کے انداز سے بیزار ہو گئے، دِلوں میں سوز نہ رہا، رُوح میں احساس نہ رہا، ہاں! ہاں! تعلیماتِ اسلام کا کچھ بھی پاس و اَدَب نہ رہا تو مسلمان تنزلی کے گہرے گڑھے میں گِر گئے۔


 

 



[1]...مسند امام احمد، مسند عائشہ، جلد:10، صفحہ:189، حدیث:25414۔

[2]... کلیاتِ اقبال(اردو)،بانگ ِدار،صفحہ:230، 231 ملتقطاً  ۔