Book Name:Farooq e Azam Aur Maaf Karne ki Aadat

آیت ِمُبارَکہ سُن کر رُک گئے

حضرت عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ عنہ سے مروی ہے کہ حُر بِن قَیْس نے اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن، حضرت عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ عنہ کے پاس آنے کی اِجازت طلب کی۔ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ نے اِجازت دے دی۔ وہ اندر آیا اور کہنے لگا:اے خطاب کے بیٹے ! خُدا کی قسم! تم نہ ہمیں صِلہ دیتے ہو اور نہ ہمارے درمیان اِنصاف کے ساتھ فیصلہ کرتے ہو۔ یہ سن کر آپ رَضِیَ اللہُ عنہ کو جلال آ گیا اور قریب تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ اسے پکڑ لیتے۔ حُر بِن قَیس کہنے لگا: اے اَمِیْرُ الْمُؤْمِنِیْن! اللہ پاک نے اپنے نبی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم سے فرمایا ہے:

خُذِ الْعَفْوَ وَ اْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰهِلِیْنَ(۱۹۹) (پارہ:9، الاعراف:199)

تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان:اے حبیب! معاف کرنا اختیار کرو اور بھلائی کاحکم دواور جاہلوں سے منہ پھیر لو۔

حُرکا یہ کہنا تھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ وہیں رُک گئے  اور یہ آپ رَضِیَ اللہُ عنہ کی عادت مبارکہ تھی کہ کتاب اللہ کی بات سُن کر ٹھہر جاتے تھے۔([1])

مُعَاف کیا کیجئے!

پیارے اسلامی بھائیو! اس میں ہمارے لئے سبق ہے، ہمیں بھی مُعَاف کرنے کی عادَت اپنانی چاہئے، افسوس کہ اب حالات بےقابُو ہیں، برداشت تَو مُعَاشرے میں بہت ہی کم رہ گئی ہے *ذرا ذرا سی بات پر لڑائی جھگڑے ہو جاتے ہیں *لفظا پائی (یعنی ایک دوسرے کو طعنے دینے، گالی گلوچ کرنے) سے لے کر ہاتھا پائی تک بات پہنچتی ہے *پِھر قتل و


 

 



[1]...بخاری، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ، باب الاقتداء بسنن رسول اللہ، صفحہ:1763، حدیث:7286 ملتقطًا۔