Book Name:Ala Hazrat Ka Iman e Kamil
آیتِ کریمہ میں،صاف فرما دیا کہ جو اللہ و رسول کی بارگاہ میں گستاخی کرے،مسلمان اُس سے دوستی نہ کرے گا، جس کا واضِح مطلب یہ ہوا کہ جو اُس سے دوستی کرے گا، وہ مسلمان نہ ہوگا۔ پھر اِس حکم کا قطعاً عام ہونا، بِالتَّصْرِیْح (یعنی وضاحت کے ساتھ) ارشاد فرمایا کہ باپ، بیٹے، بھائی، عزیز سب کو گِنایا، یعنی کوئی کیسا ہی تمہارے زعم میں مُعَظَّم یا کیسا ہی تمہیں بِالطَّبْع محبوب ہو، اِیمان ہے تو گستاخی کے بعد اس سے محبّت نہیں رکھ سکتے، اس کی وقعت نہیں مان سکتے ورنہ مسلمان نہ رہوگے۔ اللہ پاک کا اتنا فرمانا ہی مسلمان کے لئے بس تھا، مگر دیکھو وہ تمہیں اپنی رحمت کی طرف بلاتا،اپنی عظیم نعمتوں کا لالچ دِلاتا ہے کہ اگر اللہ ورسول کی عظمت کے آگے تم نے کسی کا پاس نہ کیا، کسی سے عِلاقہ(یعنی تعلق) نہ رکھا تو تمہیں،کیا کیا فائدے حاصل ہوں گے:
(1):اللہ پاک تمہارے دِلوں میں ایمان نقش کردے گا جس میں اِنْ شَآءَ اللہ الْکَرِیْم! حُسنِ خاتمہ کی عظیم خوشخبری ہے کہ اللہ پاک کا لکھا نہیں مٹتا(2):اللہ پاک روحُ القدس سے تمہاری مددفرمائے گا (3):تمہیں ہمیشگی کی جنّتوں میں لے جائے گا،جِن کے نیچے نہریں جاری ہیں (4):تم خُدا کے گروہ کہلاؤگے، خدا والے ہو جاؤ گے (5):منہ مانگی مرادیں پاؤگے بلکہ اُمّید و خیال و گمان سے کروڑوں درجے زیادہ (6):سب سے زیادہ یہ کہ اللہ پاک تُم سے راضی ہوگا (7):یہ کہ فرماتاہے:میں تم سے راضی تم مجھ سے راضی، بندے کے لئے اِس سے زیادہ او رکیا نعمت ہوتی کہ اس کا ربّ راضی ہومگر اِنتہائے بندہ نوازی یہ کہ فرمایا اللہ اُن سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔([1])
سُبْحٰنَ اللہ! پیارے اسلامی بھائیو! معلوم ہوا؛ کامِل ایمان کے تقاضوں میں سے ایک