Book Name:Ala Hazrat Ka Iman e Kamil
رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی خِدْمت میں بیعت کے لئے حاضِر ہوئے، شاہ آلِ رسول رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کا انداز مُبارَک تھا کہ جو بھی بیعت ہونے آتا، اسے کئی کئی سال تک مجاہدات کرواتے، ریاضتیں ہوتیں مگر قربان جائیے! اعلیٰ حضرت رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ 22 سالہ نوجوان ہیں، شاہِ آلِ رسول رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ کی خِدْمت میں پہنچے، آپ نے دیکھتے ہی فرمایا: آئیے! ہم تو کئی دِن سے انتظار کر رہے تھے۔ ([1]) پِھر پہلی ہی ملاقات میں آپ نے اپنے ہونہار اور نئے نئے مرید کو خِلافت بھی عطا فرما دِی، دوسرے مرید حیران تھے کہ اِس آستانے سے خِلافت لینا اتنا آسان نہیں ہے، کئی کئی سال محنت ہوتی ہے، تب یہ نعمت ملتی ہے، احمد رضا خان رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ پر ایسی عنایت کیوں؟ پِیر صاحِب سے اِس کی حکمت پُوچھی گئی، آپ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے، پِھر فرمایا: اے لوگو! تم احمد رضا کو کیا جانو...! پھر فرمایا: میں فِکْر مند تھا کہ اگر اللہ پاک نے روزِ قیامت فرمایا: اے آلِ رسول! تُو دُنیا سے ہمارے لئے کیا لایا ہے؟ تو میں کیا جواب دُوں گا۔ اَلْحَمْدُ للہ! آج وہ فِکْر دُور ہو گئی۔ اب اگر اللہ پاک نے مجھ سے پوچھا کہ آل رسول! دُنیا سے کیا لائے ہو تو میں مولانا احمد رضا کو پیش کر دوں گا۔
روزِ محشر اگر مجھ سے پوچھے خُدا بول آلِ رسول تُو لایا ہے کیا
عرض کر دوں گا لایا ہوں احمد رضا یاخُدا یہ امانت سلامت رہے
مسلکِ اعلیٰ حضرت سلامت رہے
شاہ آلِ رسول رَحمۃُ اللہ عَلَیْہ نے مزید فرمایا: (لوگو! سُنو...!) باقِی حضرات زَنگ آلود دِل لے کر آتے ہیں، ان کو تیار کرنا پڑتا ہے، احمد رضا صاف شفَّاف دِل لے کر بالکل تیار آئے