Book Name:Bani Israil Ka Bachra
گمراہ تھا، اس نے بنی اسرائیل کو بہکانے کے لئے سونے چاندی وغیرہ کا ایک بچھڑا بنایا، اس میں کوئی چیز ایسی ڈالی کہ وہ بچھڑا آواز نکالنے لگا۔ اب سامِری بولا: اے بنی اسرائیل! حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام خُدا سے ملنے کوہِ طُور پر گئے ہیں جبکہ خُدا تو تمہارے پاس آگیا، اس بچھڑے میں خُدا نے حلول کیا اور تم سے ہمکلام ہے۔ (اَسْتَغْفِرُ اللہ! اَسْتَغْفِرُ اللہ!)۔
بنی اسرائیل سامری کے بہکاوے میں آگئے اور اس بےجان بچھڑے کو خُدا سمجھ کر پُوجنا شروع ہو گئے۔([1])
ادھر بنی اسرائیل اس شِرْک میں مبتلا تھے، اُدھر اللہ پاک نے حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام کو سب صُورتِ حال سے آگاہ فرما دیا، چنانچہ حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام جلال میں آ گئے اور بہت غضب ناک ہو کر واپس تشریف لائے، اُس بچھڑے کو توڑ کر چَکْنَا چُور کر دیا، سامِری کو سخت سزا دی اور بنی اسرائیل کو توبہ کروا کر دوبارہ کلمہ پڑھا دیا۔([2])
پیارے اسلامی بھائیو! سامِری کے پاس ایسی کیا چیز تھی، جو اس نے سونے کے بچھڑے پر ڈالی تو وہ بولنے لگ گیا، اس کا بیان پارہ:16، سورۂ طٰہٰ میں ہے، حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السَّلَام نے اس سے پُوچھا کہ تم نے یہ کیسے کیا؟ تو بولا:
بَصُرْتُ بِمَا لَمْ یَبْصُرُوْا بِهٖ فَقَبَضْتُ قَبْضَةً مِّنْ اَثَرِ الرَّسُوْلِ فَنَبَذْتُهَا (پارہ:16، طٰہٰ:96)
تَرْجَمَۂ کَنْزُالْعِرْفَان:میں نے وہ دیکھا جو لوگوں نے نہ دیکھا تو میں نے فرشتے کے نشان سے ایک مٹھی بھر لی پھر اسے ڈال دیا۔
یعنی اے موسیٰ عَلَیْہِ السَّلام! میں نے وہ دیکھا جو بنی اسرائیل کو نظر نہ آیا، مطلب میں