Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot
سُبْحٰنَ اللہ! پِھر حضرت سلیمان عَلَیْہِ السَّلَام نے آنکھ جھپکا کر دیکھا تو تخت آ چکا تھا۔ ([1])
اللہ!اللہ! یہ ہے وَلِیُّ اللہ کی کرامت...!! میلوں دُور کا فاصلہ... کئی کلو وزنی تخت... حضرت آصَف بن برخیا رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ دربارِ شاہی میں ہیں، آپ نے پلک جھپکنے کی دَیْر میں تخت حاضِر کر دیا، اس سے معلوم ہوا؛ اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کے لئے زمین سمیٹ دی جاتی ہے، ان کے لئے فاصلے فاصلے نہیں رہتے، یہ سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ لمحہ بھر میں طَے کر لیا کرتے ہیں، یہ بھی کرامت ہے اور یہ کرامت کہاں ذِکْر ہوئی؟ قرآنِ کریم میں۔
صَلُّوْا عَلَی الْحَبِیْبِ! صَلَّی اللہُ عَلٰی مُحَمَّد
پیارے اسلامی بھائیو! اس ساری گفتگو سے معلوم ہوا؛ کرامت حق ہے،اللہ پاک اپنے محبوب بندوں کو، اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم کو یہ شان عطا فرماتا ہے کہ ان سے کرامات کا ظُہور ہوتا ہے، قرآنِ کریم میں بھی کئی کرامات کا ذِکْر موجود ہے، ایسے ہی حدیثِ پاک کی مشہور اور سب سے معتبر کتابوں بخاری شریف اور مسلم شریف میں بھی کئی کرامات کا ذِکْر موجود ہے۔ خُود ہمارے پیارے آقا، مکی مَدَنی مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَ سَلَّم نے اپنے صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان کو پچھلی اُمّتوں کے ولیوں کی کرامات سُنائیں۔ آئیے! حُصُولِ برکت کے لئے اَحادِیث میں بیان ہونے والی چند کرامات بھی سُن لیتے ہیں:
حدیثِ پاک میں جُرَیج راہِب کی کرامت کا ذِکْر ہے، حضرت جُریج پچھلی اُمّتوں میں