Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot
میرے پاس آجائے، میں نے اپنے مہمان کی مہمان نوازی کرنی ہے۔
قربان جائیے! صحابئ رسول حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عنہ کی آواز سُنی تو ایک ہرن اور ایک پرندہ گردن جھکائے ادب سے حاضِر خِدْمت ہو گئے۔ یہ منظر دیکھ کر وہ شخص بڑا حیران ہوا اَور تعجب کی وجہ سے اس کی زبان سے بےساختہ نکلا: سُبْحٰنَ اللہ! حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا: کیا تمہیں حیرانی ہو رہی ہے؟ کیا تم نے کوئی ایسا بندہ دیکھا ہے کہ جو اپنے رَبّ کی اِطاعت کرتا ہو مگر یہ چیزیں ( جو انسان کی خِدْمت کے لئے ہی بنی ہیں یہ ) اس کی اطاعت نہ کریں۔([1])
اللہ! اللہ! معلوم ہوا؛ کرامت اللہ پاک کا ایک فضل ہے جو اللہ پاک اپنے محبوب بندوں کو عطا فرماتا ہے۔
حدیثِ قُدسِی سے کرامات کا ثبوت
بخاری شریف میں ایک حدیثِ قدسی ہے۔ حدیثِ قُدْسی اس حدیث شریف کو کہتے ہیں؛ جس میں فرمان اللہ پاک کا ہوتا ہے اور زبان مصطفےٰ جانِ رَحْمَت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کی ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ عام احادیث میں کلام پیارے آقا، مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم کا ہوتا ہے اور صحابہ راوِی (یعنی سُن کر آگے بتانے والے) ہوتے ہیں جبکہ حدیثِ قدسی میں کلام ربِّ کریم کا ہوتا ہے اور رسولِ رحمت، شفیعِ اُمّت صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ آلِہٖ وَسَلَّم راوِی ہوتے ہیں۔آئیے! بخاری شریف کی حدیثِ قدسی سُنتے ہیں:
حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت ہے، اللہ پاک کے پیارے نبی، مکی مدنی،