Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot
ہیں([1]) جبکہ کسی عام مؤمن سے ایسا کام ظاہِر ہو جائے تو اسے مَعُوْنَت کہا جاتا ہے۔ ([2])
علّامہ یُوسُف بن اسماعیل نَبْهَانِی رَحمۃُ اللہِ عَلَیْہ فرماتے ہیں: وَلِی کی کرامت اَصْل میں نبی کا معجزہ ہوتی ہے (کیونکہ وَلِی سے کرامت ظاہِر ہونا نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے سچّا ہونے کی دلیل ہے کہ جس نبی عَلَیْہِ السَّلَام کے پیروکار کی یہ شان ہے، خُود اس نبی کی شان و عظمت کا عالَم کیا ہو گا)۔ مزید لکھتے ہیں: جب بندہ اپنے نفس کو، اپنی نفسانی خواہشات کو مٹا کر ہر طرح سے اللہ پاک کی رِضَا میں راضِی ہو جاتا ہے، وہی کام کرتا ہے، جس میں اللہ پاک کی رِضَا ہو، جن کاموں سے اللہ پاک نے منع فرمایا ہے، ان سے مُنہ موڑ لیتا ہے، غرض کہ اپنے آپ کو اللہ پاک کی مرضِی میں فَنا کر دیتا ہے تو اللہ پاک بھی اپنی رحمت سے، اپنے فضل سے اُس بندے کی مرضِی کو پُورا فرماتا ہے۔([3])
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عنہ مشہور صحابئ رسول ہیں۔ ایک روز آپ مدائن شہر سے نکلے، آپ کا ایک مہمان بھی آپ کے ساتھ تھا،(راستے میں ایک جگہ جنگل سے گزر ہوا)، ہرن جنگل میں چل رہے تھےاور پرندے ہوا میں اُڑ رہے تھے، حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ عنہ نے چاہا کہ مہمان کی مہمان نوازی (Hospitality) کی جائے۔ چنانچہ آپ نے ہرن اور پرندوں کو پُکار کر فرمایا: اے ہرنیو! اے پرندو! تم میں سے ایک پرندہ اور ایک ہرن