Book Name:Karamat e Auliya Ke Saboot
اے عاشقانِ رسول! اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہِ علیہم کی شان بہت بلند ہے، یہ نیک بندے اللہ پاک کے بڑے محبوب اور پیارے ہوتے ہیں، رَبِّ کائنات ان کو بڑے بڑے انعامات سے نوازتا ہے، انہی میں سے ایک انعام کرامت بھی ہے۔ کرامت یقیناً حق ہے، زمانۂ نبوت سے لے کر آج تک کبھی بھی اس مسئلے میں اَہْلِ حق کے درمیان اختلاف (Disagreement) نہیں ہوا، سبھی کا مُتَّفَقَه عقیدہ ہے کہ صحابۂ کرام علیہمُ الرّضوان اور اَوْلیائے کرام رَحمۃُ اللہِ علیہم کی کرامتیں حق ہیں اور ہر زمانے میں اللہ والوں سے کرامات ظاہِر ہوتی رہی ہیں اور اِنْ شَآءَ اللہُ الْکَرِیْم! قیامت تک اَوْلیائے کرام رحمۃُ اللہِ علیہم تشریف لاتے رہیں گے اور ان سے کرامات بھی ظاہِر ہوتی رہیں گی۔
کرامت کا مطلب ہے: وَلِیُّ اللہ سے ظاہِر ہونے والا ایسا کام جو عادۃً مُحال ہو یعنی ظاہِری اَسْباب کے ذریعے اس کا ظاہِر ہونا ممکن نہ ہو۔ جیسے: مُردَے کو زِندہ کر دینا، یہ عادۃً ممکن (Possible) نہیں ہے، اگر کوئی وِلِیُّ اللہ اللہ پاک کی عطا سے مُردَے کو زِندہ کر دیں تو اسے کرامت کہیں گے، ایسے ہی صِرْف ہاتھ لگا کر، آنکھ سے دیکھ کر لاعِلاج مریض (Incurable Patient) کو شِفَا دے دینا، کسی آلے (مثلاً موبائِل وغیرہ) کے بغیر دُور سے سُن لینا، دِل کی بات جان لینا، مدد کو پہنچ جانا، سینکڑوں کلومیٹر کا سَفَر سُواری کے بغیر ہی منٹوں میں طَے کر لینا وغیرہ، ایسے کام اگر وَلِیُّ اللہ سے ظاہِر ہوں تو اسے کرامت کہتے ہیں، ایسے ہی کام اگر اللہ پاک کے سچّے نبیوں سے ظاہِر ہوں تو انہیں معجزہ (Miracle) کہتے