Shehad ki Makhi Ko Nasihat

Book Name:Shehad ki Makhi Ko Nasihat

غَدَتْ تَاْكُلُ مِنَ الْحُلْوِ وَالْمُرِّ، ثُمَّ هُوَ حُلْوٌ كُلُّهُ یعنی بِلال کی مثال شہد کی مکّھی جیسی ہے۔ (مشہور صحابئ رسول حضرت بِلالِ حبشی  رَضِیَ اللہُ عنہ  کی بات ہے کہ ان کی مثال شہد کی مکّھی جیسی ہے)۔ دونوں کی آپس میں کیا مماثلت ہے؟ فرمایا: شہد کی مکّھی میٹھے پھولوں کا رَسْ بھی چوستی ہے، کڑوے پھولوں کا رَسْ بھی چوستی ہے مگر دونوں قسم کے رَس کا جو نتیجہ نکلتا ہے (یعنی شہد) وہ سارے کا سارا میٹھا ہی ہوتا ہے۔ ([1])

اسی طرح حضرت بِلال  رَضِیَ اللہُ عنہ  کی بھی یہ شان ہے کہ ان سے رویہ میٹھا اپناؤ! تو جواب میٹھا ملے گا اور رویہ کڑوا اپناؤ! جواب تب بھی میٹھا ہی ملے گا۔ ([2])

ہمارے ہاں کچھ لوگ کہتے ہیں نا کہ ہم شریفوں کے ساتھ شریف اور بدمعاشوں کے ساتھ بدمعاش ہیں۔ اس حدیثِ پاک پر ذرا غور فرمائیں۔ حضرت بلالِ حبشی  رَضِیَ اللہُ عنہ  کے غُلام کی یہ شان ہوتی ہے کہ وہ شریفوں کے ساتھ تو شریف ہوتے ہی ہے، بدمعاشوں کے ساتھ بھی شریف ہی ہوتےہے۔ حالات، واقعات اور موسم کی تبدیلی سے اِن کے اَخْلاق، کردار، افکار میں تبدیلی نہیں آتی، اِن کے ساتھ بُرائی کریں، کڑوا رویہ اختیار کریں، یہ تب بھی میٹھے ہی ہیں اور اچھائی کریں، یہ تب بھی میٹھے ہی رہتے ہیں۔

حُسْنِ اَخْلاق دیکھ کر کافِر مسلمان ہو گیا

 ایک مرتبہ ایک شخص خواجہ غریب نواز  رحمۃُ اللہِ علیہ  کی خدمت میں حاضِر ہوا اور عرض کیا: ایک عرصے سے آپ کی خدمت میں حاضِر ہونے کی تمنا تھی، شکر ہے کہ آج یہ نعمت میسر آئی۔


 

 



[1]...معجم اوسط، جلد:1، صفحہ:66، حدیث:179۔

[2]... السراج المنیر شرح الجامع الصغیر، جلد:3، صفحہ:299 بتصرف۔