سلسلہ: اخلاقِ نبوی
موضوع: حضورکی اپنے نواسوں سے محبت
(نئی رائٹرز کی حوصلہ افزائی کے لئے یہ دو مضمون 34ویں تحریری مقابلے سے منتخب کر کے ضروری ترمیم و اضافے کے بعد پیش کئے جا رہے ہیں۔)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بِنتِ طاہر (اول پوزیشن )
(جامعۃ المدینہ گرلز غلہ منڈی پاکپتن)
رسولِ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جنت کے نوجوانوں کے سردار حسنین کریمین رضی اللہُ عنہما سے محبت مثالی تھی، آپ نے ان کا عقیقہ خود فرمایا۔([1])جبکہ عموماً والدین یہ کام سر انجام دیتے ہیں۔ان دونوں پاکباز ہستیوں کو گھٹی بھی آپ ہی نے دی۔([2]) پھر جن کے بارے میں حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمائیں کہ یا اللہ! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر۔ ([3]) ان کی شان کو مکمل طور پر کوئی بیان کر ہی نہیں سکتا۔ چنانچہ ترمذی شریف کی حدیث ہے کہ حضرت ابو اسامہ بن زید رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:ایک رات میں کسی کام سے نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں گیا تو حضور اس طرح تشریف لائے کہ آپ کسی چیز کو گود میں لئے ہوئے تھے، مجھے خبر نہ تھی کہ وہ کیا ہے، جب میں اپنی ضرورت سے فارغ ہوا میں نے پوچھا:یہ کیا ہے جو آپ گود میں لئے ہوئے ہیں؟ حضور نے اسے کھولا تو وہ امام حسن و حسین تھے، پھر آپ نے ارشاد فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ الٰہی! میں ان سے محبت کرتا ہوں تو بھی ان سے محبت کر اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کر۔([4]) حضور نے ان سے محبت کو اپنی ذات سے محبت کرنا قرار دیا۔ جیسا کہ ابنِ ماجہ کی حدیثِ پاک میں ہے: مَنْ اَحَبَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسَیْنَ فَقَدْ اَحَبَّنِیْ وَ مَنْ اَبْغَضَھُمَا فَقَدْ اَبْغَضَنِیْ یعنی جس نے حسن و حسین سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔([5])
سبحان اللہ! اندازہ لگائیے کہ حضور کے ہاں امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہما کا مقام و مرتبہ کس قدر بلند اور آپ کی ان سے محبت کتنی زیادہ ہے ۔حضور ان دونوں سے محبت کا اظہار اپنے پیارے صحابہ کرام کے سامنے بھی فرماتے تھے۔ جیسا کہ ایک بار حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہُ عنہ نے امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہما کو حضور کے کندھوں پر سوار دیکھا تو عرض کی: آپ دونوں کی سواری کیسی شاندار ہے؟ تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: اور سوار بھی تو کیسے لا جواب ہیں!([6])
نیز جنتی جوانوں کے سرداروں کی شان دیکھئے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:حضور سے پوچھا گیا: آپ کو اہلِ بیت میں کون سب سے زیادہ محبوب ہے؟ ارشاد فرمایا: حسن اور حسین۔حضور سیدہ فاطمہ رضی اللہُ عنہا سے فرماتے: میرے بچوں کو میرے پاس لاؤ،پھر انہیں سُونگھتے اور اپنے ساتھ لپٹا لیتے۔([7])
سبحان اللہ! کیسا خوبصورت اور دلنشین انداز ہے!حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:حضور انہیں کیوں نہ سونگھتے وہ دونوں تو حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پھول تھے،پھول سونگھے ہی جاتے ہیں، انہیں کلیجے سے لگانا لپٹانا انتہائی محبت و پیار کے لئے تھا۔اس سے معلوم ہوا کہ چھوٹے بچوں کو سونگھنا، ان سے پیار کرنا، انہیں لپٹانا چمٹا نا سنتِ رسول ہے۔([8])
حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے انہیں اپنا پھول قرار دیا۔ چنانچہ ترمذی شریف کی حدیثِ پاک ہے:حضور نے فرمایا: حسن و حسین دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔([9]) اعلیٰ حضرت نے یہاں محبتِ حسنین کریمین سے لبریز یہ خوبصورت اشعار تحریر فرمائے ہیں:
ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں کیجیے رضا کو حشر میں خنداں مثالِ گُل
کیا بات رضا اس چمنستانِ کرم کی زہرا ہے کلی جس میں حسین اور حسن پھول
بنتِ محمد یسین
(درجہ:دورۃ الحدیث، جامعۃ المدینہ گرلزگلشنِ عطار، اسلام آباد)
حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زندگی کا ہر پہلو انسانیت کے لئے ایک بہترین مثال ہے۔آپ نے ہر رشتے کو بہترین طریقے سے نبھایا اور اپنی محبت و شفقت سے ہر تعلق کو مضبوط بنایا۔ آپ کی اپنے نواسوں امام حسن و حسین سے محبت بے مثال تھی ۔
حضور کی امام حسن و حسین سے محبت پر مشتمل روایات
(1)ایک بار امام حسن و حسین رضی اللہُ عنہما دوڑتے ہوئے حضور کے پاس آئے تو حضور نے ان دونوں کو اپنے سینے سے لگا لیا اور فرمایا: اولاد بخیل اور بزدل بنا دینے والی ہے ۔([10]) مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اولاد کو مَجْبَن مَبْخَل فرمانا ان کی برائی کے لئے نہیں بلکہ انتہائی محبت کے اظہار کے لئے ہے یعنی اولاد کی انتہائی محبت انسان کو بخیل و بزدل بن جانے پر مجبور کر دیتی ہے۔([11]) جبکہ ایک مرتبہ خطبہ کے دوران امام حسن و حسین تشریف لائے،انہوں نے سرخ رنگ کی قمیض پہنی ہوئی تھیں،کم عمری کی وجہ سے گرتے پڑتے چلے آ رہے تھے، حضور نے جب انہیں دیکھا تو منبر سے نیچے تشریف لے آئے، دونوں کو اٹھایا اور اپنے سامنے بٹھا لیا، پھر فرمایا:اللہ پاک کا یہ ارشاد سچ ہے:
اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌؕ- (پ28، التغابن:15)
ترجمہ:تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہی ہیں۔
میں نے ان بچوں کو دیکھا کہ گرتے پڑتے آ ر ہے ہیں تو مجھ سے صبر نہ ہو سکا یہاں تک کہ میں نے اپنی بات کاٹ کر انہیں اٹھا لیا۔([12])
(2)حضرت براء رضی اللہُ عنہ نے دیکھا کہ امام حسن حضور کے کندھے پر تھے اور حضور فرما رہے تھے: الٰہی! میں اس سے محبت کرتا ہوں تو بھی اس سے محبت کر۔([13]) یعنی جس درجہ کی محبت ان سے میں کرتا ہوں تو بھی اسی درجہ کی محبت کر یعنی بہت زیادہ ورنہ امام حسن پہلے ہی اللہ کے محبوب تھے۔([14])
(3)حضور نے فرمایا: حسن اور حسین یہ دونوں دنیا میں میرے دو پھول ہیں۔([15])جیسے باغ والے کو سارے باغ میں پھول پیارا ہوتا ہے ایسے ہی دنیا اور دنیا کی تمام چیزوں میں مجھے حضرات حسنین کریمین پیارے ہیں۔([16])
ان دو کا صدقہ جن کو کہا میرے پھول ہیں
کیجیے رضا کو حشر میں خنداں مثالِ گُل
(4) عام طور پر عقیقہ والدین کرتے ہیں لیکن امام حسن و حسین کی ولادتِ با سعادت پر والدین نے نہیں بلکہ حضور نے امام حسن و حسین کی پیدائش کے ساتویں دن ان کی طرف سے دو دو بکریاں عقیقہ میں ذبح فرمائیں۔([17])اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور کو اپنے نواسوں سے کیسی محبت تھی!
(5) حضور امام حسن و حسین کو سونگھتے اور سینہ مبارک سے لپٹاتے۔([18])
(6) حدیثِ پاک میں ارشاد فرمایا:جس نے حسن و حسین سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے دشمنی کی اس نے مجھ سے دشمنی کی۔([19])
کس زباں سے ہو بیان عز و شانِ اہلِ بیت
مدح گوئے مصطفیٰ ہے مدح خوانِ اہلِ بیت
[1]مصنف عبد الرزاق، 4/254،حديث:2177
[2]مسند بزار، 2/315، حدیث:743
[3]ترمذی، 5/427، حدیث:3794
[4]ترمذی، 5/ 427، حدیث:3794
[5]ابن ماجہ، 1/96، حدیث:143
[6]تاریخِ ابن عساکر، 14/162، رقم:3492
[7]ترمذی، 5/428، حدیث:3739
[8]مراۃ المناجیح، 8/478
[9]بخاری، 2/547، حدیث:3753
[10]مسند امام احمد، 29/104، حدیث:17562
[11]مراۃ المناجیح، 6/ 367
[12]ترمذی، 5/ 429، حدیث:3799
[13]بخاری، 2/547، حدیث:3749
[14]مراۃ المناجیح، 8/459
[15]بخاری، 2/547، حدیث:3753
[16]مراۃ المناجیح، 8/457
[17]مصنف عبد الرزاق، 4/254، حدیث:2177
[18]ترمذی، 5/ 428، حدیث:3797
[19]ابنِ ماجہ، 1/96، حدیث:143
Comments