63 نیک اعمال ( نیک عمل نمبر 29)
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

پیغامِ بنتِ عطار

63 نیک اعمال

(نیک عمل نمبر 29)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اولاد کو نیک اور برا بنانے میں والدین کی تربیت کا بھی دخل  ہوتا ہے، جن بچوں کی اچھی تربیت میں والدین نا کام ہو جائیں تو وہ بچے معاشرے کے بگاڑ کا سبب بن جاتے ہیں۔ لہٰذا اولاد کی تربیت قرآن و سنت کے مطابق کرنے کے لئے والدین کو ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔  چنانچہ امیرِ اہلِ سنت حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ والدین کو ان کی اس عظیم ذمہ داری کی طرف توجہ دلاتے ہوئے 63 نیک اعمال کے رسالے میں روزانہ اس بات کا جائزہ لینے کا کچھ یوں ذہن دیتے ہیں:

نیک عمل نمبر29:کیا آج آپ نے اپنی اولاد کی قرآن و سنت کے مطابق تربیت کرنے کی کوشش کی؟(وقتاً فوقتاً نماز کی ترغیب  اور وضو وغیرہ، کھانا، پانی اور بجلی میں اسراف سے بچنا، بالخصوص سنت کے مطابق کھانا پینا، سیدھے ہاتھ سے لینا دینا، جھوٹ، غیبت، چغلی اور گالی گلوچ، کھلونوں میں میوزک، گیمز اور فضول استعمال کے لیے موبائل فون دینا، بات چیت میں آپ اور جی وغیرہ وغیرہ۔)

بلاشبہ اولاد انسان کے لئے اللہ پاک کی رحمت اور نعمت ہوتی ہے، اس لئے ان کی تربیت کی بھاری ذمہ داری والدین پر ہوتی ہے کہ بچپن  ہی سے بچوں کی قرآن و سنت کے مطابق صحیح تربیت کر کے انہیں معاشرے کا بہترین فرد بنائیں۔ اگر ہم اپنے بچوں کی تربیت اسلامی طریقے پر کریں گی، انہیں عالمِ دین، حافظِ قرآن اور سنتوں کا پیکر  بنائیں گی تو یہ ہمارے لئے بخشش و نجات کا ذریعہ بنیں گے۔ اگر صرف دنیاوی طریقوں پر  تربیت کریں گی  اور ڈاکٹر و انجینئروغیرہ بنا کر مغربی تہذیب کا نمائندہ بنانے کی کوشش کریں گی تو ہو سکتا ہے وہ دنیا میں کامیاب ہو جائیں مگر آخرت میں ناکام ہو جائیں۔ لہٰذا اولاد کو دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم بھی دلوائیے تا کہ وہ معاشرے میں مثالی کردار کے مالک بنیں۔ چنانچہ،

بچوں کی تربیت پر بھرپور توجہ دیجئے کہ ان کی زندگی کے ابتدائی سال بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں، بنیاد مضبوط ہو گی تو عمارت دیر پا ہو گی۔ کیونکہ بچہ جو کچھ بچپن میں سیکھتا ہے وہ اسے ساری زندگی یاد رہتا ہے، اس لئے کہ اس کا ذہن ایک خالی تختی کی طرح ہوتا ہے اس پر جو لکھا جائے ساری عمر کے لئے محفوظ ہو جائے گا۔ لہٰذا اگر یہ سوچا جائے کہ ابھی بچہ چھوٹا ہے، ناسمجھ ہے، ذرا بڑا ہو جائے تو اس کی اخلاقی تربیت شروع کریں گی تو کہیں دیر نہ ہو جائے اور بچہ ہاتھ سے نکل نہ جائے۔ لہٰذا بچوں کو شروع ہی سے اچھی باتیں، عادتیں اور اچھے اخلاق سکھانے چاہئیں۔ اللہ پاک نے سورۂ لقمان میں اپنے پیارے بندے حضرت لقمان کی ان نصیحتوں کو بیان فرمایا جو انہوں نے اپنے بیٹے کو فرمائیں۔ ان نصیحتوں کا خلاصہ کچھ اس طرح ہے : اے میرے بیٹے! کسی چیز یا شخص کو اللہ پاک کا شریک نہ قرار دینا، بے شک شرک یقیناً بڑا ظلم ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی برائی سے بچنا، کیونکہ برائی اگر رائی کے دانے جتنی چھوٹی بھی ہو اور وہ کسی چٹان، آسمان، زمین، غار میں کہیں بھی ہو اسے قیامت کے دن اللہ پاک بندے کے سامنے لے آئے گا۔ نماز قائم رکھنا، اچھائی کا حکم دینا، برائی سے منع کرنا اور مصیبت آنے پر صبر کرنا، بے شک یہ بہت ہمت والے کاموں میں سے ہیں۔ یونہی غرور و تکبر سے بچنا اور چیخنے چلانے کے بجائے مناسب انداز میں گفتگو کرنا وغیرہ۔

ان نصیحتوں پر غور کریں تو معلوم ہو گا کہ بچوں کی تربیت کے معاملے میں والدین کو بطور خاص یہ چار کام کرنا چاہیے:

(1) بچوں کے عقائد کی تعلیم، اصلاح، پختگی اور استقامت پر توجہ دیجئے کہ عقائد کا بگاڑ آفتوں،مصیبتوں اور بلاؤں کے نازل ہونے، دلی بے قراری اور بے چینی کا ذریعہ  اور جہنم میں جانے کا حق دار بنا دیتا ہے، لہٰذا انہیں اللہ و رسول کی محبت کے جام پلائیے اور بنیادی عقائدِ اہلسنت سکھائیے تا کہ وہ عشقِ سرکار کے پیکر بنیں۔

(2) بچوں کے ظاہری اعمال و عبادات یعنی نماز روزے وغیرہ پر توجہ دیجئے اور انہیں ظاہری و باطنی آداب کے ساتھ ساتھ ضروری عبادات بھی سکھائیے، خود بھی پنج وقتہ نماز ادا کیجئے تاکہ آپ کے بچے آپ کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے نماز کے عادی ہو جائیں۔یاد رکھئے!ایک روایت کے مطابق بچے کو سات سال کی عمر ہو جانے پر نماز سکھانے اور دس سال کا ہو جانے پر نماز کے معاملے میں اس پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔([1])نیز بچوں کو قرآن بھی پڑھائیے کہ نورِ قرآن سے بچوں کے دل و دماغ آراستہ ہوں گے اور آپ کو بھی قیامت میں اس کے بدلے عظیم الشان انعامات ملیں گے جیسا کہ ایک روایت میں ہے:جس نے دنیا میں اپنے بچے کو قرآنِ کریم پڑھنا سکھایا بروزِ قیامت جنت میں اس کو ایک تاج پہنایا جائے گا جس کی بنا پر اہلِ جنت جان لیں گے کہ اس نے دنیا میں اپنے بیٹے کو قرآن کی تعلیم دلوائی تھی۔([2])

(3)بچوں کے باطن کی اصلاح  اور درستی کی جانب توجہ کرنی چاہیے کہ والدین جب یہ یقین  دل میں بٹھادیں گے کہ اللہ پاک سمیع و بصیر  اور علیم و خبیر ہے،وہ بندے کا ہر عمل ہر وقت دیکھ رہا ہے،کوئی عمل اس سے چھپا ہوا نہیں،اور ہر چھوٹے بڑے عمل کا قیامت میں حساب دینا ہوگا تو باطنی اصلاح  آسان ہو جائے گی۔

(4)بچوں کی اخلاقی تربیت کیجئے،انہیں آدابِ زندگی، معاشرتی اخلاقیات اور اسلامی کردار سکھائیے کہ اچھے اخلاق آخرت میں اللہ پاک کی رضا کا ذریعہ ہیں۔ کیونکہ میزان عمل میں کوئی چیز حُسنِ اخلاق سے بڑھ کر نہیں ہے۔([3]) ایک روایت کے مطابق کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھا ادب سکھانے سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا۔([4]) لہٰذا  بچوں کے اخلاق و آداب پر بھرپور توجہ دیجئے کہ یہ اچھے ہوں گے تو معاشرے میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جائیں گے۔انہیں نیک عمل 29 کے مطابق کھانے کی سنتیں سکھائیے تاکہ پیٹ بھرنے  کے ساتھ ساتھ ثواب بھی حاصل ہو۔ بلکہ انہیں لباس و  جوتا پہننے، ناخن کاٹنے،بال سنوارنے،تیل اور سُرما لگانے،اٹھنے بیٹھنے اور سونے جاگنے وغیرہ ہر کام کو سنت کے مطابق کرنے کا ذہن دیجئے۔بالخصوص بچوں کو گفتگو کے آداب ضرور سکھائیے کہ اچھی گفتگو انسان کی اچھی تربیت، اس کے اچھے کردار اور اچھے اخلاق کی عکاسی کرتی ہے۔آج کل جھوٹ، غیبت اور چغلی کی بیماری اس قدر عام ہے کہ لوگ اسے گناہ ہی نہیں سمجھتے۔ لہٰذا خود بھی ان برائیوں سے بچئے اور بچوں کو بھی بچانے کی کوشش کیجئے۔

الحمد للہ!برائیوں سے بچنے کا ایک ذریعہ چونکہ روزانہ کی بنیاد پر اپنے اعمال کا جائزہ لینا بھی ہے، لہٰذا  63 نیک اعمال کا رسالہ پر کرنے کی عادت بنائیے اور عیسوی ماہ کے آخر میں اپنے علاقے کی متعلقہ ذمہ دا ر اسلامی بہن کو جمع کروانے کا معمول بنا لیجئے۔ اللہ پاک ان نیک اعمال کی برکت سے ہمارے بچوں کو بھی نیک بنائے۔

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم




[1] ترمذی، 1/416، حدیث:407 2 معجم اوسط، 1/40، حدیث:96

3  الادب المفرد، ص78، حدیث:270 4 ترمذی، 3/383، حدیث:1959

[2] معجم اوسط، 1/40، حدیث:96

[3]  الادب المفرد، ص78، حدیث:270

[4] ترمذی، 3/383، حدیث:1959


Share