سلسلہ: رسم ورواج
موضوع: رخصتی (چوتھی اور آخری قسط)
*بنت ِمنصور عطاریہ مدنیہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گزشتہ سے پیوستہ:شادی کی رسموں کے سلسلے میں رخصتی کی رسمیں بیان ہو چکی ہیں اور اب رخصتی کے بعد کی رسموں کی آخری قسط پیشِ خدمت ہے۔
ولیمہ:ولیمہ کا معنیٰ ہے: ملنا،جمع ہونا۔نکاح کے بعد جو دعوتِ طعام دی جاتی ہے اسے ولیمہ کہا جاتا ہے، یہ تقریب شادی کی خوشی میں لڑکے والوں کی طرف سے ہوتی ہے۔ ولیمہ سنت ہے۔([1]) چنانچہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے بی بی صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ستو اور چھواروں سے ولیمہ کیا۔ ([2]) ولیمہ کی تاکید کئی احادیثِ مبارکہ میں مروی ہے، بلکہ ایک روایت میں ہے کہ دعوتِ ولیمہ کرو اگرچہ بکری ہی سے ہو۔ ([3]) اور بہارِ شریعت میں ہے: ولیمہ یہ ہے کہ شبِ زفاف کی صبح کو اپنے دوست احباب عزیز و اقارب اور محلہ کے لوگوں کی حسبِ استطاعت ضیافت کرے اور اس کے لیے جانور ذبح کرنا اور کھانا تیار کرانا جائز ہے۔ ([4])
ولیمہ کی میعاد:ولیمہ شبِ زفاف کی صبح پہلے یا دوسرے دن تک کر سکتے ہیں، ان دو دنوں کے بعد جو دعوت کی جائے وہ ولیمہ نہیں۔([5]) بعض لوگ کئی دنوں یا مہینوں بعد یا بسا اوقات اتنی تاخیر کرتے ہیں کہ بچے کی ولادت ہو چکی ہوتی ہے اور وہ بھی ولیمہ میں شریک ہوتا ہے تو ایسی دعوت جو شبِ زفاف کے دو روز کے بعد کی جائے وہ ولیمہ نہیں ، کیونکہ ولیمہ دو دن تک ہی ہو سکتا ہے۔ بعض لوگ رواج کے مطابق بڑے پیمانے پر ولیمہ کی دعوت کا اہتمام نہ کر پانے کی وجہ سے ولیمہ نہیں کرتے، حالانکہ ولیمہ کی دعوت کے لئے کسی زیادہ اہتمام کی ضرورت نہیں اگر دو چار اشخاص کو کچھ معمولی چیز اگرچہ پیٹ بھر نہ ہو اگرچہ دال روٹی چٹنی روٹی ہو یا اس سے بھی کم کھلادیں سنت ادا ہو جائے گی اور کچھ بھی استطاعت نہ ہو تو کچھ الزام نہیں۔ ([6])
ولیمہ کی دعوت میں شرکت کرنے کا حکم:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: دعوتِ ولیمہ کا قبول کرنا سنتِ مؤکدہ ہے، جبکہ وہاں کوئی معصیت(گناہ کا کام) مثلِ مزامیر(موسیقی/میوزک) وغیرہا نہ ہو، نہ اور کوئی مانعِ شرعی (شریعت کی طرف سے منع کیا گیا کام) ہو اور اس کا قبول وہاں جانے میں ہے، کھانے، نہ کھانے کا اختیار ہے۔ باقی عام دعوتوں کا قبول افضل ہے، جبکہ نہ کوئی مانع ہو، نہ کوئی اس سے زیادہ اہم کام ہو اور خاص اس کی کوئی دعوت کرے تو قبول کرنے،نہ کرنے کا اسے مطلقاً اختیار ہے۔([7]) یعنی دعوت قبول کرنے اور اس میں شرکت کرنے کا معیار اللہ پاک کی اطاعت و رضا ہو، کھانا کھائیں یا نہ کھائیں آپ کی مرضی۔ البتہ نہ کھائیں تو ظاہر نہ کریں ورنہ میزبان کی دل آزاری ہونا ممکن ہے۔نیز ولیمہ نام و نمود کے لیے نہ ہو، بلکہ سنت کی ادائیگی کے لیے ہی ہو اور اس میں امیر و غریب سب کو دعوت دی جائے کہ صرف امیروں کو ہی مدعو کرنے کے متعلق ایک روایت میں ہے:بدترین کھانا ولیمے کا وہ کھانا ہے جس کے لیے مالدار تو بلائے جائیں اور فقرا چھوڑ دیئے جائیں۔([8]) لہٰذا فقرا کا بھی لحاظ رکھیں، دکھاوے کی جگہ سادگی اپنائیں اور اچھی نیت اور سنت پر عمل کا اجر پائیں۔آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو سادگی کے ساتھ دعوتِ ولیمہ کرتے ہیں جیسا کہ آلِ عطار کی شادیوں کی مثالیں موجود ہیں،چنانچہ امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ نے دھوم دھام سے اپنے بچوں کی شادی کر سکنے کے باوجود انتہائی سادگی کے ساتھ شرعی تقاضوں کے مطابق مختصر انداز میں اس فریضے کی انجام دہی فرمائی،ہمیں بھی چاہیے کہ ہم کسی اور کی مرضی و رضا کو ترک کر کے صرف اللہ اور اس کے رسول کی رضامندی پر نظر رکھیں۔ ان شاء اللہ اس کی خوب برکتیں نصیب ہوں گی۔
اسٹیج پر دلہا دلہن کا ساتھ بیٹھنا: ولیمہ والے دن اکثر وہی چیزیں ہوتی ہیں جن کا ذکر بارات کے ضمن میں ہو چکا ہے، مثلاً مردوں عورتوں کا اختلاط، فوٹو گرافی، ناچ گانے اور بےپردگی وغیرہ۔یہ ساری خرافات اور ان کے نقصانات پہلے بیان ہو چکے ہیں۔ تاہم ولیمہ میں زیادہ تر زور تصاویر پر ہوتا ہے۔ دلہن سج دھج کر اپنے دلہا کے ساتھ اسٹیج پر ہوتی ہے اور محرم و نامحرم سب لوگ ان کے پاس بیٹھ کر تصاویر کھنچواتے ہیں۔
نیوتا(سلامی): بارات یا ولیمے پر دلہا دلہن کو جو پیسے دیئے جاتے ہیں اسے نیوتا، نیوندرا یا سلامی کہا جاتا ہے۔ شادی اور دیگر مواقع پر جو رقم دی جاتی ہے اس کی دو صورتیں ہیں: (1) جہاں برادری نظام ہے اور وہ اس رقم کو باقاعدہ لکھتے ہیں کہ کس نے کتنا دیا ہے پھر جب دینے والے کے گھر کوئی دعوت ہوتی ہے تو یہ اس سے کچھ زیادہ رقم دیتا ہے، یہ بھی اس رقم کو لکھتا ہے۔ اس رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر اس رقم دینے میں خیر خواہی نہ ہو بلکہ فقط ایک رسم ہو تو کوئی ثواب نہیں،البتہ اس رقم کی حیثیت قرض کی سی ہے جس کا تقاضہ کرنا درست اور واپس دینا ضروری ہے۔(2)جہاں برادری نظام نہیں ہے یا غیر برادری کے لوگ عقیدت یا دوستی یا خیر خواہی کی نیت سے دیتے ہیں تو بلا اجازتِ شرعی اس کا مطالبہ کرنا یا نہ دینے پر ناراض ہونا، اس پر طعن و تشنیع کرنا(برا بھلا کہنا) غلط و باطل ہے۔ ([9])
جوتا چھپائی:اس رسم کے نام سے ہی ظاہر ہے کہ اس میں جوتے چھپائے جاتے ہیں۔ کہیں یہ رسم رخصتی کے موقع پر اور کہیں مکلاوہ کے موقع پر کی جاتی ہے کہ دُلہن والوں کی طرف سے جوان لڑکیاں دولہے کے جوتے چُھپادیتی ہیں ان کے ساتھ نوجوان نامحرم مرد بھی شامل ہوتے ہیں اور پھر جب دولہا ان سے جوتے مانگتا ہے تو وہ دولہے کے ساتھ ہنسی مذاق اور بےتکلفی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ منہ مانگی رقم کا مطالبہ بھی کرتی ہیں جسے پورا کئے بغیر جوتا واپس نہیں ملتا۔ چونکہ جوتا چھپائی کی رسم جس طرح رائج ہے اس میں غیر محرموں کے ساتھ ہنسی مذاق، بےپردگی وغیرہ ہوتی ہے، لہٰذا یہ شرعاً ناجائز و گناہ ہے، اور بہنوئی سے تو ویسے بھی شرعاً پردہ ہے۔
جوتا چھپائی میں ملنے والی رقم کا حکم یہ ہے کہ اگر دلہا اپنی خوشی سے رقم دے تو لینا جائز ہے اور اگر وہ کم دینا چاہے مگر ناگواری کی حدتک مجبور کر کے اس سے زیادہ لیے جائیں یا وہ اس خوف سے رقم دے کہ نہ دینے کی صورت میں اسے برا بھلا کہا جائے گا، ذلیل کیا جائے گا تو اس رقم کا لینا حرام ہے۔ جو پیسے وغیرہ وہ ذلیل کیے جانے کے خوف سے اپنی عزت بچانے کے لیے دے وہ رشوت کےحکم میں ہیں، ان کا لینا ہرگز جائز نہیں۔ اگر لے لئے تو واپس کرنے ہوں گے۔([10])
شلیمہ:آج کل خرچ اور وقت بچانے کے لئے جس طرح مہندی اور شادی کو ملا کر ایک ہی تقریب شیندی کے نام سے ہو رہی ہے، وہیں بعض لوگ رخصتی اور ولیمہ کی تقاریب کو اکٹھا کر لیتے ہیں اور اسے شلیمہ کہتے ہیں، یوں ایک ہی خرچ میں دونوں تقریبات نمٹ جاتی ہیں،اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ ولیمہ کی سنت ادا نہیں ہوتی۔حالانکہ اگر رخصتی ایک روز قبل گھر سے ہی کر لی جائے اور اگلے روز بھلے شلیمہ کے نام سے ایک ہی دعوت دی جائے تو یوں سنت بھی ادا ہو جائے گی اور مقصود بھی حاصل ہو جائے گا یعنی خرچ کم ہو جائے گا۔
مکلاوہ: ولیمہ کی مکمل تقریب کے بعد اکثر کے ہاں یہ رواج ہے کہ دلہن کو واپس میکے لے جایا جاتا ہے۔ اس میں بھی اگر کوئی غیر شرعی کام نہ ہو اور شوہر کی اجازت ہو تو بالکل جائز ہے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* دفتر ذمہ دار پاک سطح، شعبہ حج و عمرہ کراچی
Comments