جادوگروں کے کرتوت اور شرعی سزائیں
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: شرحِ حدیث

موضوع: جادوگروں کے کرتوت اور شرعی سزائیں

*بِنتِ کریم عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

فرمانِ مصطفےٰ ہے: رات میں ایک گھڑی ایسی تھی جس میں حضرت داؤد  علیہ السلام  اپنے گھر والوں کو جگاتے اور فرماتے تھے: اے داؤد کے گھر والو! اٹھو! نماز پڑھ لو کیونکہ یہ وہ گھڑی ہے جس میں اللہ پاک جادوگر یا ظلماً ٹیکس وصول کرنے والوں  کے سوا سب کی دعا قبول فرماتا ہے۔([1])

شرحِ حدیث

حکیمُ الامت مفتی احمد یار خان نعیمی  رحمۃ اللہِ علیہ  اس حدیث کی شرح میں فرماتے ہیں: یہ دونوں(جادوگر اور ٹیکس وصول کرنے والے) بڑے ظالم ہوتے ہیں، جادوگر لوگوں پر جانی ظلم کرتا ہے اور چنگی والے، ٹیکس وصول کرنے والے مالی ظلم بہت کرتے ہیں اور ان کے ذمہ حقوق العباد بہت ہوتے ہیں اس لیے ان کی تہجد کے وقت مانگی ہوئی دعا بھی قبول نہیں ہوتی کیونکہ لوگوں کی بد دعائیں ان کے پیچھے پڑی ہوتی ہیں۔ صوفیا فرماتے ہیں: دعا کی قبولیت چاہتے ہو تو بد دعائیں نہ لو۔ ([2])

اس سے معلوم ہوا کہ جادوگر بارگاہِ الٰہی سے کس قدر دور ہیں کہ تہجد کا وقت جو کہ اللہ پاک سے مناجات کرنے اور دعائیں قبول ہونے کا وقت ہے اس وقت میں بھی ان کی دعا قبول نہیں ہوتی، جادو کرنے والا دنیا و آخرت میں ذلت و رسوائی کا حق دار ہے، دنیا میں بھی جادوگر کے لیے شرعاً سزائیں مقرر ہیں اور آخرت میں بھی اس کے لیے عذاب کی وعید ہے۔  جیسا کہ ایک روایت میں ہے: جادو کرنے والے کی سزا یہ ہے کہ اس کو تلوار سے قتل کر دیا جائے۔([3]) جبکہ حضرت ابنِ مسیب  رضی اللہُ عنہ  سے مروی ہے کہ امیر المومنین حضرت عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  نے ایک جادوگر کو پکڑ کر اسے سینے تک گاڑ  کر چھوڑ دیا یہاں تک کہ وہ مر گیا۔([4])نیز حضرت بَجالَہ  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں: ہمارے پاس حضرت عمر فاروق  رضی اللہُ عنہ  کا خط ان کی شہادت سے ایک سال پہلے تشریف لایا جس میں یہ تحریر  تھا کہ ہر جادوگر کو قتل کر دو۔([5])

احناف کے نزدیک اگر کسی کا کئی مرتبہ لوگوں پر جادو کرنا ثابت ہو یا وہ معین شخص پر جادو کا اقرار کرے تو اسے قتل کیا جائے گا۔ یہ حکم مرد کا ہے چاہے مسلمان ہو یا کافر، اگر عورت ہے تو اسے قید کیا جائے گا۔([6])البتہ! جادوگر کو قتل کرنا حاکم کا کام ہے عوام کو قانون ہاتھ میں لینے کی شرعاً اجازت نہیں۔ کسی شخص کا لوگوں پر جادو کرنا شرعاً ثابت ہو جائے تو امام اعظم  رحمۃ اللہِ علیہ  کے نزدیک اس کی توبہ حاکم قبول نہیں کرے گا بلکہ اسے قتل ہی کرے گا۔([7])جبکہ علامہ بدرُ الدین عینی لکھتے ہیں کہ امام مالک،  امام اعظم اور امام احمد کی دو روایتوں میں سے مشہور روایت کے مطابق جادو گر کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی۔([8])

جادوگر چونکہ کالا جادو کرتے ہیں اور جادو کی بھاری فیس لیتے ہیں، لہٰذا کالے جادو کی کمائی کے متعلق دار الافتا اہلسنت کا فتویٰ ہے:  کالا جادو کرنے کی اُجرت لینا ناجائز و حرام ہے ، اسی طرح اجرت دینا بھی ناجائز و حرام ہے ، کیونکہ یہ سراسر ناجائز اور گناہ والا کام ہے،جبکہ گناہ والے کام کا اجارہ کرنا، اس کی اجرت لینا، اسی طرح اس کی اجرت دینا بھی ناجائز و گناہ ہے ۔ ناجائز کام کی اجرت کے حرام ہونے کے بارے میں امام احمد رضا خان  رحمۃ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں:حرام فعل کی اجرت میں جو کچھ لیا جائے، وہ بھی حرام کہ اجارہ نہ معاصی پر جائز ہے، نہ اطاعت پر۔([9])اگرچہ دی جانے والی اجرت حلال مال سے دی جائے،پھر بھی یہ اجرت لینا ناجائز ہی ہے اور جس چیز کا لینا ناجائز ہوتا ہے وہ دینا بھی ناجائز ہے۔ لہٰذا دینے والے کے لئے بھی یہ اجرت دینا جائز نہیں ہے۔([10])

جعلی عاملوں اور جادوگروں کے کرتوت: بہت سے لوگ علم و شعور کی کمی اور دین سے دوری کی وجہ سے نام نہاد عاملوں اور  جادوگروں کے چکر میں پھنس جاتے ہیں جو سادہ لوح عوام کو اپنے جال میں پھنسا کر ان سے مال بٹورتے ہیں۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان جعلی عاملوں وغیرہ کے ہاتھوں ایسی خواتین کی عصمت دری کے واقعات بھی پیش آتے رہتے ہیں۔ کیونکہ ایسے عامل اور بابوں کے جھانسے کا شکار زیادہ تر خواتین ہی ہوتی ہیں اور اس کی ایک بہت بڑی وجہ جگہ جگہ ان جعلی عاملوں کے اشتہارات اور پمفلٹ وغیرہ کی تعداد میں اضافہ ہے۔ جگہ جگہ دیواروں پر کچھ اس طرح کے الفاظ لکھے ہوتے ہیں: آپ کے مسائل کا واحد حل فلاں بنگالی عامل، ہر مسئلے کا حل صرف ایک فون کال،من پسند شادی، رشتوں اور کاروبار کی بندش، بے اولادی وغیرہ ہر مسئلے کا حل۔ایسے بیسیوں جملے جگہ جگہ لکھے ہوئے نظر آتے ہیں جن سے متاثر ہو کر بے روز گاری، بے اولادی، گھریلو ناچاقی،بیماری اور قرض داری وغیرہ جیسے مسائل میں پھنسے لوگ اپنے مسائل کا واحد حل ان جعلی عاملوں کو سمجھنے لگتے ہیں۔ ان جعلی بابوں کا شکار بننے والوں میں خواتین کی تعداد بہت زیادہ ہے جو شوہروں کو راہِ راست پر لانے، اولاد کو فرمانبردار بنانے، گھریلو جھگڑوں سے نجات وغیرہ کے لیے ان کے پاس جاتی ہیں اور ان کے ہتھے چڑھ کر اپنا مال و دولت اور بسا اوقات عزت تک گنوا بیٹھتی ہیں۔ چنانچہ 2013 میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق جعلی عاملوں نے دو برسوں کے دوران  2500  سے زائد خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔([11])

جعلی عاملین اور بچوں کا قتل: ان جعلی عاملوں کے ہاتھوں انسانی جانیں تک محفوظ نہیں، کیونکہ بعض لوگ ان عاملوں کے کہنے پر جادو کے لئے انسانی خون، دل، جگر، کھوپڑی وغیرہ حاصل کرنے کے لئے معصوم بچوں کے اغوا اور قتل تک کے واقعات میں ملوث ہو جاتے ہیں  اور بعض تو اس حد تک گر جاتے ہیں کہ اپنے یا اپنے کسی عزیز کے بچوں تک کو قتل کر ڈالتے ہیں۔ جیسا کہ ایک رپورٹ کے مطابق ایک ظالم ماموں نے ایک جعلی عامل کے کہنے پر اپنی مراد پانے کے لیے سفاکیت کی تمام حدیں پار کرتے ہوئے اپنی ہی بہن کی گود اجاڑ دی اور اپنے تین بھانجوں کو ذبح کر کے جنگل میں پھینک دیا۔ اطلاعات کے مطابق بچوں کو قتل کرنے والا یہ شخص کسی عامل کا عقیدت مند تھا اور اس سے یہ جادو ٹونہ سیکھنا چاہتا تھا۔ نیز اس عامل نے ہی اسے یہ حکم دیا تھا کہ اگر تم ماہر عامل بننا چاہتے ہو تو تین بچوں کو قتل کرو۔  اسی طرح ایک جعلی پیر نے اپنے ایک بے اولاد مرید کو یہ ہدایت کرتے ہوئے کہا کہ اگر وہ کسی بچی کو قتل کرے گا تو اس کی اولاد ہو گی۔ چنانچہ اس پر اس ظالم و سفاک شخص نے اپنے ایک رشتہ دار کی چار سالہ بچی کو قتل کر دیا۔([12])

سخت دلی کی انتہا ہو گئی ہے، ایک عام انسانی ذہن بھی اس بات کو تسلیم نہیں کر سکتا کہ کسی معصوم کی جان لینا آپ کے حالات کو بدل سکتا ہے۔ لیکن ان جعلی عاملوں اور پیروں کے جھانسے میں آ کر ان ظالموں کی عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں اور یہ ایسے گھناؤنے جرائم کر بیٹھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ جادوگر کی آخرت میں سزا جہنم کا عذابِ عظیم ہے جس کی ہولناکیوں اور خوف ناکیوں کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو اپنے حفظ و امان میں رکھے اور جہنم کے درد ناک عذاب سے محفوظ رکھے۔([13])

اٰمین بِجاہِ النّبیِّ الْاَمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* شعبہ ٹیچر ٹریننگ ڈیپارٹمنٹ مجلس جامعۃ المدینہ گرلز



[1]مسند امام احمد، 26/ 209، حدیث:16281

[2]مراۃ المناجیح، 2 /261

[3]ترمذی ، 4 /139، حدیث:1465

[4]مصنف عبد الرزاق، 9/480، حدیث:19026

[5]ابو داود، 3/ 227، 226، حدیث:3043

[6]احکام تعویذات، ص134

[7]احکامِ تعویذات، ص 136

[8] عمدۃ القاری، 10/55

[9]فتاویٰ رضویہ، 21/187

[10]دار الافتا اہلسنت غیر مطبوع، فتوی نمبر:Aqs-2348 ماخوذ اً

[11]روز نامہ نوائے وقت 23 جون 2013

[12]روز نامہ نوائے وقت  25 اپریل  2014

[13]جہنم کے خطرات، ص50


Share