سلسلہ: اخلاقیات
موضوع: درست مشورہ
*ام انس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زندگی میں بہت سے مراحل میں ہم کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے شش وپنج میں مبتلا ہوتی ہیں اور یہ فیصلہ نہیں کر پاتیں کہ کیا کریں! چنانچہ اس معاملے میں کسی تجربہ کار سے مشورہ کرتی ہیں تا کہ بعد میں ہمیں اپنے ذاتی فیصلے پر پچھتاوا نہ ہو کہ یہی ہمارے دین نے بھی ہمیں سکھایا ہے۔
یاد رکھئے! مشورہ شور سے بنا ہے جس کا معنی ہے ظاہر کرنا یا حاصل، چونکہ مشورہ میں ہر ممبر رائے ظاہر کرتا ہے یا ہر شخص کی رائے حاصل کی جاتی ہے اسی لئے اسے مشورہ کہتے ہیں، اسی سے شوریٰ اور مشاورت بنا ہے۔مشورہ کرنا سنت سے ثابت ہے،اللہ پاک نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا فرمانا چاہا تو فرشتوں سے فرمایا
اِنِّیْ جَاعِلٌ فِی الْاَرْضِ خَلِیْفَةًؕ- (پ 1، البقرۃ: 30)
ترجمہ: میں زمین میں اپنانائب بنانے والا ہوں۔
یہ مشورہ تھا،اپنے ارادے کی محض اطلاع نہ تھی ورنہ فرشتوں کو اپنی رائے ظاہر کرنے کی ہرگز جُرأت نہ ہوتی۔([1]) کیونکہ اللہ پاک اس سے پاک ہے کہ اس کو کسی سے مشورے کی حاجت ہو،البتہ!یہاں خلیفہ بنانے کی خبر فرشتوں کو ظاہر ی طور پر مشورے کے انداز میں دی گئی جس سے ہمیں یہ سیکھنے کو ملتا ہے کہ کوئی اہم کام کرنے سے پہلے کسی سے مشورہ کر لیا جائے تاکہ اس کام سے متعلق کوئی خدشہ ہو تو اس کا ازالہ ہو جائے یا کوئی ایسی مفید رائے مل جائے جس سے وہ کام مزید بہتر انداز سے ہو جائے۔
مشورہ کرنا اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام سے بھی ثابت ہے،بلکہ اس کا ذکر تو قرآن میں ہے،جیسا کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو صحابہ کرام سے مشورہ کرنے کا حکم کچھ یوں ارشاد فرمایا
وَ شَاوِرْهُمْ فِی الْاَمْرِۚ- (پ 4، اٰل عمران:159)
ترجمہ:اور کاموں میں ان سے مشورہ لیتے رہو۔
اور انصار صحابہ کرام کا وصف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا
وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ۪- (پ 25، الشوریٰ:38)
ترجمہ: اور ان کا کام ان کے باہمی مشورے سے (ہوتا) ہے۔
امیر المومنین حضرت عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نوجوان اور عمر رسیدہ دونوں طرح کے علمائے کرام سے مشورہ کیا کرتے تھے اور فرماتے: تم میں سے کسی کو اس کی کم عمری مشورہ دینے سے نہ روکے کیونکہ علم کا مدار کم یا زیادہ عمر پر نہیں بلکہ اللہ جسے چاہے علم سے نواز دیتا ہے۔([2])حضرتِ عمر بن عبد العزیز رحمۃُ اللہِ علیہ خلیفہ بننے سے پہلے جب مدینے شریف کے گورنر بنے تو پہلا کام یہ کیا کہ وہاں کے فقہائے کرام کو جمع کر کے ان سے مشورہ کیا اور ان کی باقاعدہ مجلسِ شوریٰ بنا دی جو آپ کو ضرورتاً مشورے دیا کرتی تھی۔([3])
مشورے کے فوائد:مشورے کے چند فضائل و فوائد یہ ہیں: *ایک روایت میں ہے: جو مشورہ کرتا ہے وہ کبھی بدبخت نہیں ہوتا اور جو دوسروں کے مشوروں سے بے پروا ہو وہ کبھی نیک بخت نہیں ہوتا۔ ([4]) * مشورہ کچے دھاگے کی طرح ہے جس سے کوئی مضبوط کام نہیں ہو سکتا لیکن اگر چند مشورے اکٹھے ہو جائیں تو اس مضبوط رسی کی طرح ہو جاتے ہیں جس سے بڑی بھاری چیز بھی باندھ لی جاتی ہے۔* مشورے سے کام کرنا ناکامی کی صورت میں شرمندگی سے محفوظ رکھتا ہے، کیونکہ ایک روایت میں ہے:جس نے مشورہ کیا وہ شرمندہ نہیں ہو گا۔([5]) * مشورہ برکت کی چابی ہے جس سے غلطی کا امکان کم ہو جاتا ہے۔
مشورہ دینے کے آداب: *حدیثِ پاک میں ہے: جس سے مشورہ لیا جائے وہ امانت دار ہے۔([6])اور ایک روایت کے مطابق جو جان بوجھ کر غلط مشورہ دے تو اس نے خیانت کی۔([7]) لہٰذا مشورے کا سب سے پہلا ادب اور تقاضا یہ ہے کہ ایمانداری اور دیانت داری کے ساتھ درست مشورہ ہی دیا جائے۔ چنانچہ مشورہ لینے والی کی جگہ خود کو رکھ کر دل سے فیصلہ کیجئے کہ اگر اس کی جگہ مجھے مشورے کی ضرورت ہوتی تو کیا یہ مشورہ مجھے قابلِ قبول ہوتا؟ یوں درست مشورہ دینے کا ذہن بنے گا۔ کسی کا قول ہے: اگر تمہارا دشمن تم سے مشورہ مانگے تو اسے بھی اچھا مشورہ دو کیونکہ مشورہ مانگ کر وہ تمہارے دشمنوں کی صف سے نکل کر دوستو ں میں شامل ہو گیا ہے۔
*اگر آپ عقل مند ہیں اور آپ سے اکثر مشورے لئے جاتے ہیں تو بھی بن مانگے مشورہ نہ دیجئے اور اگر بات بات پر مشورہ دینے کی عادت ہے تو اسے ختم کرنے کی کوشش کیجئے کہ جو خواتین بات بے بات مشورے دیتی ہیں ان سے لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، مگر افسوس! ہمارے یہاں مشورہ لینے کی نوبت کم ہی آتی ہے،بغیر مانگے ہی مشوروں کی بھرمار ہو رہی ہوتی ہے،مثلاًبچہ بیمار ہوا تو ڈاکٹر کے بارے میں مشورے کہ فلاں کے پاس لے کر جاؤ، فلاں اچھا ہے، فلاں تجربہ کار نہیں، یہاں تک کہ بعض خواتین دوائیں تک بتاتی ہیں کہ بچے کو یہ یہ دوائی دو۔ یونہی کوئی عورت امید سے ہو تو اس پر مشوروں کی بارش ہونے لگتی ہے کہ اس حالت میں یہ کرنا اور یہ نہ کرنا اور اگر اس دوران چاند یا سورج گرہن ہو جائے تو بطور خاص فون کر کے یا خود گھر جا کر اطلاع دی جاتی ہے کہ آج چاند گرہن ہے، احتیاط کرنا، ورنہ یوں ہو جائے گا اور کبھی تو ان مشوروں کی وجہ سے بیچاری حاملہ عورت کی جان مشکل میں آ جاتی ہے۔
*اپنے مشورے کو مشورہ ہی سمجھئے بطورِ حکم دوسروں پر مسلط نہ کیجئے، کیونکہ بعض خواتین مشورہ نہیں بلکہ حکم دیتی ہیں یعنی ان کی بات پر عمل نہ کیا گیا تو لعن طعن اور ناراضی کا سامنا کرنا پڑتا ہے، فساد برپا ہو جاتا ہے کہ آخر کار اپنی ہی چلائی، میری بات کی کوئی اہمیت ہے نہ میری کوئی اوقات ہے وغیرہ۔ یاد رکھیے! اس طرح کے جملے آپ کی عزت و اہمیت کو کم کر دیتے ہیں اور آپ کو پتا بھی نہیں چلتا کہ آپ کسی کے دل سے اتر جاتی ہیں۔ لہٰذا نیک مشورہ ضرور دیجئے مگر اس کو مشورہ ہی سمجھئے،اگر کوئی تسلیم نہ کرے تب بھی دل بڑا رکھئے اور اس معاملے میں امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ کی یہ بات یاد رکھیے کہ مشورہ یہ کہہ کر دیا جائے کہ یہ میرا ناقص مشورہ ہے، تاکہ اگر رد ہو تو ملال نہ ہو۔ الحمد للہ! دعوتِ اسلامی کے دینی ماحول میں مشوروں کا نظام بڑا مضبوط ہے،اسلامی بہنوں کی عالمی مجلسِ مشاورت سے لے کر ذیلی حلقوں تک ہر کام مشورے سے ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں دعوت اسلامی کے تحت خواتین میں ہونے والے دینی کاموں کے پھیلنے و بڑھنے میں مشوروں کا بھی بہت کردار ہے۔
مشورہ لینے والی کو جس سے مشورہ کرنا ہے اس کی عمر، تجربہ اور علم پر بھی غور کر لینا چاہیے کہ ایک قول کے مطابق سات قسم کے لوگوں سے مشورہ نہیں کرنا چاہیے:جاہل،دشمن، حاسد، ریاکار، بزدل،کنجوس اور خواہش کی پیروی کرنے والا۔ جاہل تو خود گمراہ ہوتا ہے، دشمن تمہاری ہلاکت چاہتا ہے، حاسد تمہاری نعمتوں کے زوال کا باعث ہوتا ہے، ریاکار لوگوں کی مرضی پر چلتا ہے، بزدل ہر مشکل مقام سے بھاگنے کا مشورہ دیتا ہے۔کنجوس مال جمع کر نے کا حریص ہوتا ہے اور اس کے علاوہ اس کی کوئی رائے نہیں ہوتی نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے والا خواہشات کا غلام ہوتا ہے اور خواہش کی مخالفت کرنے پر قادر نہیں ہوتا۔([8])چنانچہ مشورہ ضرور کیجئے اور ضرور دیجئے مگر اس کی اہمیت کو سمجھ کر مشورہ دیجئے اور لیجئے۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* رکن انٹرنیشنل افئیرز ڈیپارٹمنٹ
[1]معلم تقریر،ص55
[2] مصنف عبد الرزاق، 10/ 363، حدیث: 21111
[3] البدایۃ و النہایۃ، 6/332 ماخوذاً
[4] تفسیر قرطبی، 2/193، جز: 4
[5] معجم اوسط، 5/77، حدیث: 6627
[6] ابن ماجہ، 4/223، حدیث: 3745
[7] ابو داود، 3/449، حدیث: 3657
[8] دین و دنیا کی انوکھی باتیں، ص 149
Comments