شرح سلامِ رضا
ماہنامہ خواتین ویب ایڈیشن

سلسلہ: فیضانِ اعلیٰ حضرت

موضوع: شرح سلامِ رضا

*بنتِ اشرف عطاریہ مدنیہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔161

سیّد آلِ محمد امامُ الرشید

گُلِ رَوضِ ریاضت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:آلِ محمد:سید برکت اللہ مارہروی  رحمۃ اللہ علیہ  کے بڑے شہزادے۔امام الرشید: ہدایت کے امام۔ گل: پھول۔ روضِ ریاضت: عبادت کی کیاری۔

مفہومِ شعر: سید آلِ محمد پہ لاکھوں سلام جو کہ ہدایت کے پیشوا اور زہد وتقویٰ کے روحانی باغ کے مہکتے پھول ہیں۔

شرح: بروز بدھ 18 رمضان المبارک 1111ھ کو بلگرام میں حضرت سید شاہ برکت اللہ مارہروی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ہاں سید شاہ آلِ محمد پیدا ہوئے جن کی کنیت ابو البرکات اور لقب برہان الموحدین ہے۔ آپ نے اپنے والد کی آغوشِ رحمت میں تعلیم و تربیت پائی، انہی سے شرفِ بیعت اور خرقۂ خلافت و اجازت بھی حاصل ہے، ان کے علاوہ سید العارفین میر شاہ لطف اللہ  رحمۃ اللہ علیہ  نے بھی خلافت و اجازت سے نوازا۔ آپ کا شمار بھی اعلیٰ حضرت کے مشائخِ عظام میں ہوتا ہے، یہ اعلیٰ حضرت کی آپ سے بے پناہ محبت و عقیدت کا ثبوت ہے کہ اعلیٰ حضرت نے آپ کو امام الرشید اور ریاضت و نجابت کے باغ کا مہکتا ہوا پھول قرار دیا۔

162

حضرتِ حمزہ شیرِ خدا و رسول

زینتِ قادریت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی: زینت: سجاوٹ، آرائش۔

مفہومِ شعر: سید حمزہ مارہروی اللہ و  رسول کے شیر اور قادری سلسلہ کی زینت  پر لاکھوں سلام۔

شرح:اسد العارفین، قطب الکاملین،زبدۃ الواصلین، سند الصالحین حضرت الشاہ سید حمزہ مارہروی  رحمۃ اللہ علیہ  سید آلِ محمد کے بڑے صاحبزادے اور سجادہ نشین ہیں، آپ کی ولادت 14 ربیع الثانی 1131ھ مطابق مارچ 1719ء کو مارہرہ شریف میں ہوئی۔ آپ نے اپنے والد گرامی سے تمام علوم ظاہری و باطنی کی تکمیل کی، انہی سے بیعت ہوئے اور منازلِ سلوک طے کرنے کے بعد خلافت و اجازت سے مشرف ہوئے۔ آپ نہایت ذہن و فطین تھے، گیارہ سال کی عمر میں تمام علوم و فنون میں مہارت حاصل کر چکے تھے، آپ نے اپنے دادا شاہ برکت اللہ مارہروی  رحمۃ اللہ علیہ  کا بھی خوب فیض اٹھایا اور ان کی صحبت سے بھی فیضیاب ہوئے، آپ کے دادا جان نے چار سال کی عمر میں ہی آپ کے سر پر اپنی کلاہ مبارک رکھ دی تھی۔ ([1])

آپ علم و فضل میں یکتا، مایہ ناز مصنف، عدیم النظیر عارف اور اولیائے اکابرین میں سے تھے، آپ صاحبِ کرامت و تصرف بھی تھے، نہایت منکسر المزاج اور بااخلاق تھے، زہد و تقویٰ کا یہ عالم تھا کہ دس سال کی عمر سے جو نماز تہجد شروع فرمائی تو وصال تک کبھی قضا نہ ہوئی۔ ([2])  آپ کو کتب بینی میں بہت دلچسپی تھی، آپ کے پاس مختلف علوم و فنون کی تقریباً 16 ہزار کے قریب کتابیں جمع تھی، آپ نے کئی کتب تصنیف فرمائیں۔ آپ کا ادبی ذوق بھی بہت عمدہ تھا اور فنِ شاعری میں اس قدر مہارت تھی کہ برمحل اشعار کہا کرتے تھے، شعر و شاعری میں اپنا تخلص ”عینی“ رکھتے تھے، اردو اور فارسی میں آپ کے اکثر اشعار ملتے ہیں، حضور غوث پاک  رحمۃ اللہ علیہ  کی شان میں بہت خوبصورت مشہورِ زمانہ منقبت جو کہ فارسی میں ہے

غوثِ اعظم بمن بےسر و ساماں مددے

قبلۂ دیں مددے کعبۂ ایماں مددے

یہ بھی آپ ہی کی تحریر کردہ ہے۔

آپ کی پانچ اولادیں ہوئیں: شاہ آلِ احمد(اچھے میاں)،شاہ برکات (ستھرے میاں)، شاہ آلِ حسین (سچے میاں)، سید علی (یہ بچپن میں ہی فوت ہوگئے تھے) اور ایک صاحبزادی۔

آپ کا وصال 14 محرم الحرام 1198ھ مطابق 10 دسمبر 1783ء بروز بدھ بعد نمازِ مغرب مارہرہ شریف میں ہی ہوا۔

حضرت سید شاہ حمزہ قادری مارہروی  رحمۃ اللہ علیہ  سلسلہ عالیہ قادریہ رضویہ کے 35 ویں امام اور شیخِ طریقت ہیں۔

163

نام و کام و تن و جان و حال و مَقال

سب میں اچھے کی صورت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی: مقال: گفتگو، بات چیت۔

مفہومِ شعر: نام وکام، جسم وروح اور حال ومقال ہر لحاظ سے اچھے یعنی سید آلِ احمد عرف اچھے میاں  رحمۃ اللہ علیہ  کی صورت پر لاکھوں سلام۔

شرح: آپ کا اسم گرامی سید اٰل احمد، کنیت ابو الفضل اور القاب اچھے میاں، قدوۃ الکاملین اور قطب العارفین وغیرہ ہیں۔ آپ کی ولادت باسعادت 28 رمضان المبارک 1160ھ مطابق اکتوبر  1747ء کو مارہرہ میں ہوئی۔ آپ کی ولادت سے قبل آپ کے پردادا حضرت شاہ برکت اللہ نے یہ بشارت دی تھی کہ مجھے بفضلِ الٰہی چار واسطوں کے بعد ایک لڑکا عنایت ہو گا جس سے رونقِ خاندان دوبالا ہو گی، پھر حضور نے اپنا ایک خرقہ عنایت فرمایا کہ یہ اس صاحبزادے کے لیے ہے، آپ کے دادا حضرت شاہ اٰلِ محمد نے آپ کو رسمِ بسم اللہ کے وقت گود میں بٹھا کر ارشاد فرمایا: یہ وہی شہزادہ ہے جس کی بشارت میرے والد ماجد نے دی تھی۔([3])

حضرت اٰلِ احمد اچھے میاں سلسلۂ عالیہ قادریہ رضویہ کے 36 ویں امام،شیخِ طریقت اور اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  کے دادا پیر و مرشد ہیں۔جس طرح حضور غوثِ اعظم  رحمۃ اللہ علیہ  مظہر ذاتِ پاک مصطفےٰ تھے۔اسی طرح حضور آلِ احمد اچھے میاں مظہرِ غوثِ اعظم تھے، آپ نے علوم ظاہری و باطنی و منازلِ سلوک کی تکمیل اپنے والد ماجد سے فرمائی اور آپ کے روحانی معلم حضور جناب غوثِ پاک  رحمۃ اللہ علیہ  تھے۔ آپ بڑے باکمال عارف باللہ تھے، کرامات و تصرفات میں کوئی آپ کا کوئی ثانی نہ تھا، ([4])  ایک اندازے کے مطابق آپ کے مریدین کی تعداد تقریباً دو لاکھ کو پہنچتی ہے۔ ([5])

آپ کی علمی وجاہت کا یہ عالم تھا کہ حضرت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  بعض مسائل میں تشفی کے لیے لوگوں کو آپ کی خدمت میں بھیجا کرتے تھے، جیسا کہ ایک شخص نے بغداد میں آستانہ عالیہ غوثیہ کے نقیب الاشراف سے مسئلہ وحدۃ الوجود کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے شاہ عبد العزیز دہلوی کی خدمت میں جانے کو فرمایا، جب اس شخص نے حاضر ہو کر مدعا عرض کیا تو آپ نے فرمایا کہ آپ مارہرہ میں حضرت اچھے میاں کی خدمت میں جائیں وہ آپ کی تشفی فرمائیں گے۔ ([6])

آپ کا وصال بروز جمعرات 17ربیع الاول 1235ھ بمطابق 30 دسمبر 1819ء بوقتِ چاشت 75سال کی عمر میں ہوا۔

164

نورِ جاں عِطر مجموعہ آلِ رسول

میرے آقائے نعمت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی: نورِ جاں: جان کا نور۔

مفہومِ شعر:میری جان وروح کا نور اور ان گنت خوبیوں کا خلاصہ ومجموعہ، میرے آقائے نعمت یعنی حضرت آلِ رسول  رحمۃ اللہ علیہ  پر لاکھوں سلام۔

شرح: سید شاہ آل برکات معروف ستھرے میاں کے صاحبزادے خاتم الاکابر، سید آلِ رسول کی ولادت باسعادت 1209ھ میں مارہرہ میں ہوئی۔ آپ نے اپنے دور میں جن جید علمائے کرام سے تعلیم حاصل کی ان میں سے ایک شخصیت شاہ عبد العزیز محدث دہلوی  رحمۃ اللہ علیہ  بھی ہیں۔ آپ کو اپنے بڑے چچا حضرت اچھے میاں  رحمۃ اللہ علیہ  سے اجازت و خلافت حاصل تھی۔ والد ماجد نے بھی اجازت مرحمت فرمائی تھی مگر مرید اچھے میاں  رحمۃ اللہ علیہ  کے سلسلہ میں فرماتے تھے۔

حضرت آلِ رسول مارہروی سلسلہ عالیہ قادریہ کے 37ویں امام اور اعلیٰ حضرت فاضلِ بریلوی  رحمۃ اللہ علیہ  کے پیر و مرشد ہیں، آپ کا شمار 13ویں صدی ہجری کے اکابر اولیائے کرام میں ہوتا ہے، آپ کے تعارف میں بس یہی کہنا ہے کہ اعلیٰ حضرت نے ان کے دستِ اقدس پر بیعت کی اور انہیں آقائے نعمت قرار دیا۔ آپ کا وصال 18 ذوالحجۃ الحرام 1296ھ بمطابق دسمبر 1879ء کو ہوا۔ وقتِ رِحلت لوگوں نے درخواست کی کہ حضور! کچھ وصیت فرما دیجئے۔بہت اصرار پر فرمایا:مجبور کرتے ہو تو لکھ لو ہمارا وصیت نامہ:

اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ5، النسآء:59)

یعنی اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو!

بس یہی کافی ہے اور اسی میں دین و دنیا کی فلاح ہے۔آپ کا مزار شریف مارہرہ شریف میں مرجع خلائق ہے۔

165

زیبِ سجادہ سجّاد نوری نِہاد

احمدِ نور طِینَت پہ لاکھوں سلام

مشکل الفاظ کے معانی:زیب:زینت۔سجادہ:بزرگوں کی مسند۔سجاد: بہت زیادہ سجدہ کرنے والے۔ نوری نہاد: نوری پیدائش والے۔ نور طینت: نورانی عادت و خصلت۔

مفہومِ شعر:حضرت سید شاہ ابو الحسین احمد نوری  رحمۃ اللہ علیہ  جو کہ سجادہ نشینوں اور عبادت گزاروں کی زینت اور نورانی خلقت و جبلت والے ہیں، آپ پر لاکھوں سلام۔

شرح:سراج السالکین نور العارفین سید شاہ ابو الحسین احمد نوری  رحمۃ اللہ علیہ  شاہ ظہور حسن کے بیٹے اور حضرت شاہ آل رسول مارہروی  رحمۃ اللہ علیہ  کے پوتے ہیں۔آپ کی ولادت باسعادت 19 شوال المکرم 1255ھ بمطابق 26 دسمبر 1839ء بروز جمعرات مارہرہ شریف میں ہوئی۔ ابھی آپ کی عمر مبارک اڑھائی برس تھی کہ آپ کے والد گرامی کا سایہ سر سے اٹھ گیا آپ کے دادا جان حضرت آلِ رسول کی آغوش میں آپ کی تعلیم و تربیت ہوئی، 12 ربیع الاوّل 1267ھ میں دادا بزرگوار سے 12سال کی عمر میں بیعت ہوئے اور اجازتِ مطلقہ سے مشرف کیے گئے۔ اعلیٰ حضرت  رحمۃ اللہ علیہ  کو آپ سے خاص عقیدت و محبت تھی اور آپ نے کئی علوم خصوصاً علم جفر میں انہی سے استفادہ کیا، اعلیٰ حضرت نے اپنے کلام میں جا بجا ان کا تذکرہ بھی فرمایا ہے، جیسا کہ قصیدہ نور کے آخر میں اپنی عقیدت کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

اے رضا یہ احمد نوری کا فیضِ نور ہے

ہوگئی میری غزل بڑھ کر قصیدہ نور کا

یہ بھی منقول ہے کہ آپ ہی کی بارگاہ میں ریاستِ نان پارہ کے نواب نے عرض کی تھی کہ احمد رضا سے فرمائیں کہ میرے لیے کوئی ایک قطعہ لکھ دیں، چونکہ یہ آپ کا مرید تھا، آپ نے اس سے فرمایا کہ اچھا جب مولانا خوش طبعی کے موڈ میں ہوں گے میں کہہ دوں گا، چنانچہ جب اعلیٰ حضرت کو حکم ہوا تو آپ نے قلم اٹھایا اور لکھا:

کروں مدح اہلِ دول رضا پڑے اس بلا میں میری بلا

میں گدا ہوں اپنے کریم کا میرا دین پارۂ ناں نہیں

11 رجب 1324ھ میں یہ آفتابِ طریقت غروب ہو گیا۔ آپ کا مزار مارہرہ مطہرہ میں منبعِ فیوض و برکات ہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* ڈبل ایم اے (اردو، مطالعہ پاکستان) گوجرہ منڈی بہاؤ الدین



[1] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 351

[2] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 352

[3] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 358

[4] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 358

[5] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 364

[6] تذکرۂ مشائخ قادریہ رضویہ، ص 360


Share