اسلام اور تجارت
قراٰنِ پاک میں مذکور پیشے(قسط : 02)
* مولانا عبدالرحمٰن عطاری مدنی
ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021
اینٹ بنانے کے پیشے کا ذکر :
اللہ رب العزت کا فرمان ہے : (فَاَوْقِدْ لِیْ یٰهَامٰنُ عَلَى الطِّیْنِ فَاجْعَلْ لِّیْ صَرْحًا) ترجَمۂ کنز الایمان : تو اے ہامان میرے لیے گارا پکا کر ایک محل بنا۔ [1] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السّلام نے فرعون کو اللہ پاک کے ایک ہونے پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو اس پر فرعون نے انکار کرتے ہوئے اپنے وزیر ہامان سے کہاتھا کہ اے ہامان! میرے لیے آگ پر گارے کی اینٹ تیار کرواور ایک انتہائی اونچا محل بناؤ ، شاید میں موسیٰ کے خدا کو جھانک لوں۔ دراصل فرعون نے یہ گمان کیا تھا کہ ( مَعاذَ اللہ) اللہ پاک کے لئے مکان ہے اور اس کا کوئی جسم ہے جس تک پہنچنا اس کے لئے ممکن ہے ، اس لئے اس نے ہامان کو عمارت بنانے کا حکم دیا ، چنانچہ ہامان نے فرعون کے حکم پر عمل کرتے ہوئے ہزارہا کاریگر اور مزدور جمع کئے ، اینٹیں بنوائیں اور تعمیراتی سامان جمع کر کے اتنی بلند عمارت بنوائی کہ(اس وقت) دنیا میں اس کے بر ابر کوئی نہ تھی۔ کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے اینٹ بنانے والا ہامان ہے ، یہ صَنعت اس سے پہلے نہ تھی۔ [2]
زیور بنانے کے کام کا ذکر :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (وَ اتَّخَذَ قَوْمُ مُوْسٰى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا لَّهٗ خُوَارٌؕ- ) ترجَمۂ کنز الایمان : اور موسیٰ کے بعد اس کی قوم اپنے زیوروں سے ایک بچھڑا بنا بیٹھی بے جان کا دھڑ گائے کی طرح آواز کرتا۔ [3] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ حضرت سیّدنا موسیٰ علیہ السّلام جب اللہ پاک سے کلام کرنے کے لئے کوہِ طور پر تشریف لے گئے تو آپ کے جانے کے 30 دن بعد سامری نے بنی اسرائیل سے وہ تمام زیوارت جمع کر لئے جو انہوں نے اپنی عید کے دن قبطیوں(یعنی فرعون کی قوم) سے استعمال کی خاطر لئے تھے ۔ فرعون چونکہ اپنی قوم کے ساتھ ہلاک ہو چکا تھا ، اس لئے یہ زیورات بنی اسرائیل کے پاس تھے اور لوگ سامری کی بات کواہمیت دیتے اور اس پر عمل بھی کرتے تھے اور سامری چونکہ سونے کو ڈھالنے کا کام کرتا تھا اس لئے اس نے تمام سونے چاندی کو ڈھال کر اس سے ایک بے جان بچھڑا بنالیا(اور بنی اسرائیل اسے پوجنے لگے)۔ [4]
شیشے کے کام کا ذکر :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (قَالَ اِنَّهٗ صَرْحٌ مُّمَرَّدٌ مِّنْ قَوَارِیْرَ۬ؕ-) ترجَمۂ کنز الایمان : سلیمان نے فرمایا یہ تو ایک چکنا صحن ہے شیشوں جڑا۔ [5] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کا پسِ منظر کچھ یوں ہےکہ ملکہ بلقیس جب حضرت سیّدنا سلیمان علیہ السّلام کے پاس آئیں تو ان سے کہا گیا کہ صحن میں آجائیں ، اس صحن کے وسط میں حضرت سیدنا سلیمان علیہ السّلام تخت پر جلوہ افروز تھے ، وہ صحن شفاف شیشے کا بنا ہوا تھا اوراس کے نیچے پانی جاری تھا جس میں مچھلیاں تیر رہی تھیں ، ملکہ بلقیس نے جب اُس صحن کو دیکھا تو وہ سمجھیں کہ یہ گہرا پانی ہے ، اس لئے انہوں نے اپنی پنڈلیوں سے کپڑا اونچا کر لیا تاکہ پانی میں چل کر حضرت سیدنا سلیمان علیہ السّلام کے پاس آسکیں۔ اس پر حضرت سیدنا سلیمان علیہ السّلام نے ان سے فرمایا تھا : یہ پانی نہیں بلکہ یہ تو شیشوں سے جڑا ہوا ایک ملائم صحن ہے۔ [6]
سوت کاتنے کے کام کا ذکر :
قراٰنِ مجید میں ہے : (وَ لَا تَكُوْنُوْا كَالَّتِیْ نَقَضَتْ غَزْلَهَا مِنْۢ بَعْدِ قُوَّةٍ اَنْكَاثًاؕ-)ترجَمۂ کنز الایمان : اور اس عورت کی طرح نہ ہو جس نے اپنا سُوت مضبوطی کے بعد ریزہ ریزہ کرکے توڑ دیا۔ [7] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) تفسیرِ خزائنُ العرفان میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت ہے : مکّۂ مکرّمہ میں ریطہ بنتِ عمرو ایک عورت تھی جس کی طبیعت میں بہت وہم تھا اور عقل میں فُتور ، وہ دوپہر تک محنت کر کے سُوت کاتا کرتی اور اپنی باندیوں سے بھی کتواتی اور دوپہر کے وقت اس کاتے ہوئے کو توڑ کر ریزہ ریزہ کر ڈالتی اور باندیوں سے بھی توڑواتی ، یہی اس کا معمول تھا۔ آیت کے معنی یہ ہیں کہ اپنے عہد کو توڑ کر اس عورت کی طرح بےوقوف نہ بنو۔
ملاحی یعنی کشتی چلانے کے کام کا ذکر :
ارشادِ باری تعالیٰ ہے : (اَمَّا السَّفِیْنَةُ فَكَانَتْ لِمَسٰكِیْنَ یَعْمَلُوْنَ فِی الْبَحْرِ فَاَرَدْتُّ اَنْ اَعِیْبَهَا وَ كَانَ وَرَآءَهُمْ مَّلِكٌ یَّاْخُذُ كُلَّ سَفِیْنَةٍ غَصْبًا(۷۹))ترجمۂ کنزُ العرفان : وہ جو کشتی تھی تووہ کچھ مسکین لوگوں کی تھی جو دریا میں کام کرتے تھے تو میں نے چاہا کہ اسے عیب دار کردوں اور ان کے آگے ایک بادشاہ تھا جو ہرصحیح سلامت کشتی کو زبردستی چھین لیتا تھا۔ [8] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) اس آیت کا پسِ منظر کچھ یوں ہے کہ حضرت سیّدنا خضر اور حضرت سیّدنا موسیٰ علیہما السّلام کے قصے میں جو عجیب و غریب معاملات ہوئے تھے ان میں سے ایک یہ بھی تھا کہ جب یہ دونوں حضرات کشتی میں سوار جارہے تھے تو بیچ سمندر میں حضرت خضر علیہ السّلام نے کلہاڑی کے ذریعے کشتی کے ایک یا دو تختے اس طریقے سے اکھاڑ ے کہ پانی کشتی میں نہ آئے پھر آپ نے اپنے اس فعل کی حقیقت سے پردہ اٹھاتے ہوئے اس کی حکمت یہ بیان کی کہ ’’اس (اکھاڑنے) سے میرا مقصد کشتی والوں کو ڈبو دینا نہیں تھا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ کشتی دس مسکین بھائیوں کی تھی ، ان میں پانچ تو اپاہج تھے جو کچھ نہیں کرسکتے تھے اور پانچ تندرست تھے جو دریا میں کام کرتے تھے اور اسی پر ان کے روزگار کا دارومدار تھا۔ آگے ایک بادشاہ تھا اور انہیں واپسی میں اس کے پاس سے گزرنا تھا ، کشتی والوں کو اس کا حال معلوم نہ تھا اور اس کا طریقہ یہ تھا کہ وہ ہرصحیح سلامت کشتی کو زبردستی چھین لیتا اور اگر عیب دار ہوتی تو چھوڑ دیتا تھا اس لئے میں نے اس کشتی کو عیب دار کردیا تاکہ وہ ان غریبوں کے لئے بچ جائے۔ ‘‘[9]
لکڑی کے کام کا ذکر :
اللہ پاک نے اپنے پیارے نبی حضرت سیّدنا نوح علیہ السّلام کو کشتی بنانے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا : (وَ اصْنَعِ الْفُلْكَ بِاَعْیُنِنَا وَ وَحْیِنَا) ترجَمۂ کنز الایمان : اور کشتی بنا ہمارے سامنےاور ہمارے حکم سے۔ [10] (اس آیت کی مزید وضاحت کے لئے یہاں کلک کریں) چنانچہ حضرت سیّدنا نوح علیہ السّلام نے اللہ پاک کے حکم سے ساج کے درخت بوئے ، بیس سال میں یہ درخت تیار ہوئے ، پھر آپ نے (ان درختوں سے )کشتی بنانی شروع کی جو دو سال میں تیار ہوئی ، اس کشتی کی لمبائی تین سو گز ، چوڑائی پچاس گز اور اُونچائی تیس گز تھی۔ حضرت سیّدنا نوح علیہ السّلام جب کشتی بنارہے ہوتے اور آپ کی قوم کے سرداروں میں سے کوئی قریب سے گزرتا تو وہ آپ کا مذاق اڑاتا اور کہتا : اے نوح! کیا کررہے ہیں؟ آپ فرماتے : ایسا مکان بنا رہا ہوں جو پانی پر چلے ۔ یہ سُن کر وہ ہنستے کیونکہ آپ کشتی جنگل میں ایسی جگہ بنا رہے تھے جہاں دور دور تک پانی نہ تھا اور وہ لوگ(مَعاذَ اللہ!) مذاق کے طور پر یہ بھی کہتے تھے کہ پہلے تو آپ نبی تھے اب بڑھئی ہوگئے۔ [11]
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ
[1] پ20 ، القصص : 38
[2] صراط الجنان ، 7 / 285 ، 284ملخصاً
[3] پ9 ، الاعراف : 148
[4] صراط الجنان ، 3 / 435 ، 434
[5] پ19 ، النمل : 44
[6] صراط الجنان ، 7 / 208ملخصاً
[7] پارہ14 ، النحل : 92
[8] پارہ16 ، الکہف : 79
[9] صراط الجنان ، 6 / 20ملخصاً
[10] پارہ12 ، ھود : 37
[11] صراط الجنان ، 4 / 437 ، 436 ملخصاً
Comments