اللہ پاک سے عافیت مانگئے

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

از : شیخِ طریقت ، امیرِ اَہلِ سنّت حضرت علّامہ مولانا ابو بلال محمد الیاس عطّاؔر قادری رضوی  دامت بَرَکَاتُہمُ العالیہ

کروڑوں حَنبلیوں کے پیشوا حضرت امام احمدبن حنبل  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں کہ میں قراٰنِ کریم یاد کرتا رہتا تھا ، پھرجب علمِ حدیث کی طرف مائل ہواتواس علم میں میری مشغولیت بڑھ گئی اور میں نے اپنے آپ سے کہا کہ قراٰنِ پاک کب یاد کروں گا؟تومیں نے اپنے رب سے دعاکی کہ یااللہ!حفظِ قراٰنِ کریم کی سعادت عطا کرکے مجھ پر احسان فرما۔ مگر اس وقت “ عافیت “ کے الفاظ نہیں کہے تھے ، (دعاتوقبول ہوئی مگر اس کی قبولیت کی صورت یوں بنی کہ) جب مجھے قید کیا گیا تو اس دوران میں نے قراٰنِ کریم یاد کرلیا۔ لہٰذا اللہ پاک سے جب تم کسی حاجت کا سوال کروتوساتھ میں عافیت بھی مانگاکرو۔ (مناقب امام احمد ، ص57) اے عاشقانِ رسول! عافیت کا مطلب ہے سلامتی۔ لہٰذا ، مثلاً اللہ پاک سے نوکری کے لئے دعا کرنی ہے تو اس طرح دعامانگئے کہ یااللہ پاک!فلاں نوکری اگر میرے حق میں بہتر ہو تو مجھے عافیت و سلامتی کے ساتھ وہ نوکری ملے۔ ربِّ کریم سے صرف عافیت ہی مانگنے کی اہمیت کے متعلق 4فرامینِ آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : (1)اللہ پاک کے پیارے نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں ایک شخص نے حاضر ہوکرعرض کی : اے اللہ کے رسول! سب سے افضل دعا کون سی ہے؟ارشادفرمایا : اپنے رب سے عافیت اور دنیا وآخرت کی بھلائی مانگو۔ دوسرے دن حاضر ہوکر پھر اس نے عرض کی : اے اللہ کے رسول!سب سے افضل دعا کون سی ہے؟نبیِّ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اسی کی مثل(یعنی پہلے دن جوجواب عطا فرمایا تھا اسی طرح کا) جواب ارشادفرمایا۔ اس شخص نے تیسرے دن حاضر ہوکر پھروہی سوال کیا ، رسولِ رحمت  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے پھر اس کی مثل جواب دے کر ارشاد فرمایا : جب تجھے دنیا و آخرت میں عافیت مل جائے تو تُو کامیاب ہوگیا۔ (ترمذی ، 5 / 305 ، حدیث : 3523) (2)اللہ پاک سے عافیت کا سوال کرنا اسے زیادہ محبوب (یعنی پیارا) ہے۔ (ترمذی ، 5 / 306 ، حدیث : 3526) (3)اللہ پاک سے عَفْو و عافیت کا سوال کیا کرو کیونکہ یقین (یعنی ایمان و دین میں سمجھ بُوجھ) کے بعد کسی کو عافیت سے بہتر کوئی چیز نہیں دی گئی۔ (ترمذی ، 5 / 327 ، حدیث : 3569 ، مرقاۃ المفاتیح ، 5 / 349) (4)بندہ اس (دعا) : اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ اَسْئَلُکَ الْمُعَافَاۃَ فِی الدُّنْیَا وَالْاٰخِرَۃِ (یعنی ا ے اللہ! میں تجھ سے دنیا و آخِرت میں عافیت کا سُوال کرتاہوں) سے افضل کوئی دُعا نہیں مانگتا۔ (ابن ماجہ ، 4 / 273 ، حدیث : 3851) حکیمُ الامت مفتی احمدیار خان  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : مُعافات میں جسمانی ، روحانی ، نفسانی ، شیطانی تمام آفتوں سے سلامَتی شامل ہے۔ (نیز) صوفیائے کرام فرماتے ہیں کہ عافیت اسی میں ہے جس میں رب راضی ہے ، لہٰذا حضورِ اَنور  صلَّی اللہ علیہ وسلَّم  کا خَیبر میں زہر کھا لینا ، فاروقِ اعظم کا مُصلّائے مصطفٰے پر خنجر کھاکر شہید ہونا ، عثمانِ غنی کا قرآن پڑھتے ہوئے ذبح ہوجانا ، امامِ حسین کا بے آب و دانہ مثلِ پروانہ ، شمعِ مصطفوی پر نثار ہوجانا ، عافیت ہی تھا۔ لہٰذا رب تعالیٰ سے وہ عافیت مانگو جو اس کے علم میں ہمارے لیے عافیت ہے نہ وہ جو ہمارے علم میں ہمارے لیے عافیت ہو۔ (مراۃ المناجیح ، 3 / 297 ، 4 / 74)

اللہ پاک ہمیں دونوں جہاں میں عافیت وسلامتی عطافرمائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ خاتمِ النّبیّٖن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

(نوٹ : یہ مضمون29مئی2021ء کو عشا کی نماز کے بعد ہونے والے مدنی مذاکرے کی مدد سے تیار کرکے امیرِ اہلِ سنّت کو دکھانے کے بعد پیش کیا جارہا ہے۔ )


Share