گناہوں کا سفیر

حدیث  شریف اور اُس کی شرح

گناہوں کا سفیر

* مولانا محمد ناصر جمال عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا فرمان ہے : جھوٹ سے بچو! کیونکہ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے اور گناہ جہنم کی طرف لے جاتا ہے ، آدمی ہمیشہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور اس کی جستجو میں رہتا ہے یہاں تک کہ اللہ پاک کے نزدیک بہت بڑا جھوٹا لکھ دیا جاتا ہے۔ [1]

جھوٹ کیا ہے؟

بات کاحقیقت کے خلاف ہونا جھوٹ ہے۔ [2] جھوٹ اپنے بدترین انجام اور برے نتیجے کی وجہ سے تمام برائیوں کی جڑ ہےکہ اِس سے چغلی کا در وازہ کھلتا ہے ، چغلی سے بغض پیدا ہوتاہے ، بغض سے دشمنی ہوجاتی ہےجس کے ہوتے ہوئے امن و سکون قائم نہیں ہوسکتا ۔ [3] اسی لئے اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  نے جھوٹ کی خرابیوں کو کئی انداز میں بیان فرمایا ہے ، یہ حدیث ِ پاک اُن میں سے ایک ہے۔ شروع میں ذکر کی گئی حدیثِ پاک میں جھوٹ کو گناہوں کا سبب قرار دیا گیا ہے نیز یہ بھی ذہن میں رہے کہ رسول ُاللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو(بُری عادات میں سے)جھوٹ کی عادت سب سےبڑھ کرنا پسندتھی۔ [4]

مؤمن جھوٹا نہیں ہوسکتا :

مومن کی شان جھوٹ سے کس قدر بلند اور پاک ہوتی ہے اس کا اندازہ اس فرمانِ مصطفے  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے لگائیے چنانچہ بارگاہِ رسالت میں عرض کی گئی : یارسولَ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ! کیا مؤمن بزدل ہو سکتا ہے؟ اِرشاد فرمایا : ہاں ، پوچھا گیا : کیا مؤمن بخیل ہو سکتا ہے؟ اِرشاد فرمایا : ہاں ، پوچھا گیا : کیا مؤمن جھوٹا ہو سکتا ہے؟  تو حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اِرشاد فرمایا : نہیں۔ [5]یعنی مسلمان میں بزدلی یا کنجوسی فطری طورپرہوسکتی ہے کہ یہ عُیوب اِیمان کے خِلاف نہیں ، لہٰذا مؤمن میں ہوسکتی ہیں۔ (ہاں!) مگر بڑا جھوٹا ، ہمیشہ کا جھوٹا ہونا ، جھوٹ کا عادی ہونا مؤمن ہونے کی شان کے خِلاف ہے۔ ‘‘[6]

جھوٹ سے بچنے کی تاکید کیوں؟

جھوٹ سے بچنے کی تاکید اس لئے کی گئی ہے کہ اِس میں دنیا و آخرت کے کئی نقصانات ہیں مثلاً : *جھوٹ کبیرہ گناہوں میں بدترین گناہ ہے۔ [7] *جُھوٹ بولنا مُنافِق کی نشانیوں میں سے ایک نِشانی ہے۔ [8] *جُھوٹ ایمان کے مُخالِف ہے۔ [9] *جب بندہ جُھوٹ بولتا ہے ، اس کی بَدبُو سے فرشتہ ایک مِیْل دُور ہوجاتا ہے۔ [10] *جو جھوٹ بولتا ہے اس کا حسن وجمال جاتا رہتا ہے۔ [11] *ایک روایت میں ہے کہ جو جھوٹ بولتاہے اس کے چہرے کی آب وتاب اور رونق ختم ہوجاتی ہے۔ [12] *جھوٹ ہر برائی کے دروازے کو سیراب کرتا ہے جیسا کہ پانی درخت کی جڑوں کو سیراب کرتا ہے۔ [13] *جھوٹ بولنے سے مُنہ کالا ہوجاتا ہے۔ [14] *جھوٹ بولنے والے قِیامت کے دن ، اللہ پاک کے نزدیک سب سے زِیادہ ناپسندیدہ اَفراد میں شامِل ہوں گے۔ [15]*جھوٹ میں بھلائی نہیں ہے۔ [16] اِس تفصیل سے حدیث کے اس حصے “ جھوٹ سے بچو “ میں موجود تا کید کی حکمت واضح ہوگئی ، اب حدیث ِ پاک کے دوسرے حصے “ جھوٹ گناہ کی طرف لے جاتا ہے “ کی وضاحت ملاحظہ کیجئے :

جھوٹ “ گناہ “ کی طرف ایسے لےجاتاہے :

جھوٹ میں بظاہر نجات دِکھتی ہے لیکن حقیقت میں وہ ہلاکت ہوتی ہے۔ لوگ اسی ظاہر سے دھوکا کھا کر جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور بڑے بڑے گناہ کر بیٹھتے ہیں ، اس بات کو سمجھانے کے لئے چند مثالیں پیش کرتا ہوں : (1) “ قراٰن میں ہے نا ، حدیث میں یوں ہے ، ایک روایت میں آیا ہے وغیرہ “ جیسے الفاظ سننےمیں آ تے ہوں گےحالانکہ جو بات وہ کہتے ہیں وہ نہ قراٰن میں مذکور ہوتی ہے نہ کسی حدیث یا روایت میں ، بس لوگ اس طرح کے جھوٹے حوالے اپنی جہالت چھپانے یا اپنے علم کی دھاک بٹھانے کیلئے دیتے ہیں اور پھر اُس پر دلیری دکھاتے ہوئے کبھی تو مَن مانی تشریح کر کےاللہ و رسول پر بہتان باندھنے کا گناہِ کبیرہ کرلیتے ہیں۔ بسااوقات اس طرح کاجھوٹ “ اللہ پاک ، رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کےفرمان یا اسلام کے کسی بنیادی عقیدے کے انکار “ کی وجہ سےسب سے بڑے گناہ “ کفر “ میں پڑنے کا سبب بنتا ہے (2)آج کل لوگ جھوٹ کےمعاملے میں اتنے دلیر ہوچکے ہیں کہ فانی دنیا کے چند روز عیش و عشرت میں گزارنے اور دنیوی خواہشات پوری کرنے کے لالچ میں بیرونِ ملک جانے کیلئے خود کو جھوٹ موٹ میں غیر مسلم تک لکھوا دیتے ہیں اور یہ سمجھتے ہیں کہ “ ہم دل میں مسلمان ہیں صرف لکھنے اور زبان سے کہنے سے کچھ نہیں ہوتا۔ “ یادرکھئے!کتنی ہی مجبوری کیوں نہ ہو خود کوجھوٹ موٹ میں “ غیر مسلم “ (عیسائی ، یہودی ، قادِیانی یا کسی بھی کافِر و مُرتد گُروہ کا ’’فر د‘‘)ظاہر کرنے پر حکمِ کفر ہے (3)دواؤں کے بارے میں تھوڑا بہت جاننے والا یا کسی کلینک واسپتال میں کام کرنے والے کا خود کو ڈاکٹر کہلانا ، چند جڑی بوٹیوں کے بارے میں جان لینے کے بعد خود کو حکیم کہلوانا یا اس طرح کے اور ٹائٹلز استعمال کرنا بھی جھوٹ ہے۔ اِن جھوٹے ٹائٹلز کو حاصل کرنے یا بچانے کیلئے رشوت دے کر جعلی ڈگریاں بھی حاصل کی جاتی ہیں اور اِن کے ذریعے دھوکا دیا جاتا ہے ، ایسے ہی  لوگوں کے جھوٹ کے نتائج ہمارے جانی و مالی نقصان کی صورت میں نکلتے ہیں۔

 “ جھوٹ “ کی وبا اتنی عام ہے کہ علم سے خالی بےعمل لوگ مذہبی اسکالروغیرہ جیسے الفاظ اپنے لئے استعمال کرلیتے ہیں حالانکہ ایسا کرنا سَراسَر جھوٹ ہے۔ اِن غلط لوگوں کےاِس مذہبی ٹائٹل کو استعمال کرتے ہوئے قراٰن و سنّت کی مَن مانی تشریحات کا نتیجہ بےعملی اور گمراہی جیسے گناہِ جاریہ کی صورت میں نکلتا ہے۔

(4)بعض لوگ مذاق میں جھوٹ بول دیتے ہیں ، بسااوقات یہ ایک جھوٹ بہت سے سارے گناہوں کا مجموعہ ہوتا ہے۔ رسولُ اللہ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے مذاق میں جھوٹ بولنے سے منع فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا : یعنی بربادی ہے اُس کیلئے جو لوگوں کو ہنسانے کیلئے جھوٹ بولے ، بربادی ہے اُس کے لئے ، بربادی ہے اُس کے لئے۔ ‘‘[17] یعنی لوگوں کو ہنسانے کے لئے تو جھوٹ بولنا ہمیشہ ہی جرم بلکہ ڈبل جرم ، مگر لوگوں کو منانے کے لئے ہنسی مذاق میں سچی بات شریعت کے دائرے میں ہو تو گناہ نہیں۔

حکیمُ الْاُمّت مفتی احمدیار خان نعیمی  رحمۃُ اللہِ علیہ  فرماتے ہیں : کسی پریشان یا مغموم کو ہنسادینے کے لئے اچھی و سچی دل لگی کی بات کہہ دینا ثواب ہے ، حضرت عمر  رضی اللہُ عنہ  نے ایک بار حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ہنسا دینے کے لئے اپنا گھریلو واقعہ بیان فرمایا ، یہ سنّتِ فاروقی ہے۔ بہرحال ایسے جائز کاموں میں بھی اعتدال چاہیے ان کا عادی بن جانا اچھا نہیں۔ امام غزالی فرماتے ہیں کہ خوش طبعی تو حضور  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سی خوش طبعی کرے جو بالکل حق ہوتی تھی۔ [18]

جھوٹا لکھ دئیے جانے سے مراد :

حدیثِ پاک میں فرمایا گیا کہ بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے تو اسے کذّاب (بہت زیادہ جھوٹا) لکھ دیا جاتا ہے یعنی اس کے لئے یہ حکم کر دیا جاتا ہے کہ یہ جھوٹا ہے ، فرشتوں پر اس کا جھوٹا ہونا ظاہر کردیا جاتا ہے اور زمین والوں کے دلوں میں بھی یہ بات ڈال دی جاتی ہے۔ حضرت مالک  رحمۃُ اللہِ علیہ حضرت ابنِ مسعود  رضی اللہُ عنہ کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں : بندہ جھوٹ بولتا رہتا ہے اور جھوٹ بولنے کا ارادہ کرتا ہے تو اس کے دل پہ ایک سیاہ نکتہ پڑجاتا ہے یہاں تک کہ اس کا دل سیاہ ہوجاتا ہے اور پھر وہ اللہ پاک کے ہاں جھوٹا لکھ دیا جاتاہے۔ [19]

اگر آپ میں جھوٹ بولنے کی عادت ہے تو اُسے چھوڑ دیجئےکہ اللہ پاک کے آخری نبی  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جو جھوٹ چھوڑ دے ، جو کہ باطل چیز ہے ، تو اس کے لئے جنّت کے کنارے میں گھر بنایا جائے گا۔ [1]اللہ پاک ہمیں جھوٹ جیسے گناہ سے بچائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃ المدینہ  ، ذمہ دار شعبہ فیضان حدیث ، المدینہ العلمیہ (اسلامک ریسرچ سینٹر ) ، کراچی



[1] ترمذی ، 3 / 391 ، حدیث : 1978

[2] حدیقہ ندیہ ، 2 / 400

[3] ادب الدنیا و الدین ، ص413

[4] سنن کبریٰ ، 10 / 331 ، حدیث : 20821

[5] مُؤطّا امام مالک ، 2 / 468 ، حدیث : 1913

[6] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 477

[7] خزائن العرفان ، ص519 ، معجم کبیر ، 18 / 140 ، حدیث : 293

[8] مسلم ، ص 53 ، حدیث : 106

[9] مسند احمد ، 1 / 22 ، حدیث : 16

[10] ترمذی ، 3 / 392 ، حدیث : 1979

=[11] موسوعہ ابن ابی الدنیا ، 5 / 220 ، رقم : 88

[12] شعب الایمان ، 4 / 208 ، حدیث : 4814

[13] موسوعہ ابن ابی الدنیا ، 5 / 214 ، رقم : 49

[14] شعب الایمان ، 4 / 208 ، حدیث : 4813

[15] کنز العمال ، جزء : 16 ، 8 / 39 ، حدیث : 44037

[16] الزہد لابی داؤد ، ص68

[17] ترمذی ، 4 / 142 ، حدیث : 2322

[18] مراٰۃ المناجیح ، 6 / 462

[19] فتح الباری ، 11 / 430 ، تحت الحدیث : 6094

[20] ترمذی ، 3 / 400 ، حدیث : 2000


Share