سب سے اولیٰ و اعلیٰ ہمارا نبی

 ثواب کے انبار(قسط : 11)

* مولاناابوالنّور راشد علی عطاری مدنی

ماہنامہ فیضان مدینہ دسمبر2021

گزشتہ سے پیوستہ


 (22)فرمانِ مصطفےٰ  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہے : اَنَا اَعْظَمُكُمْ اَجْرًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ ، لِاَنَّ لِي اَجْرِي ، وَمِثْلَ اَجْرِ مَنِ اتَّبَعَنِي۔ ترجمہ : میں قیامت کے دن اجر کے لحاظ سے تم سب سے بڑا ہوں ، کیونکہ میرے لئے میرا اور جو بھی میری اِتّباع کرے گا ان سب کا اجر ہے۔  [1]

حضورنبیِّ رحمت ، خاتمِ نبوّت جناب ِمحمدِ مصطفےٰ احمدِ مجتبیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اجرو ثواب ، مقام ومرتبہ ، عظمت و رفعت کا کوئی اندازہ تو کیا ہی نہیں جاسکتا۔ جنہوں نے آپ کی شان اور رفعت ِ منزلت پر لکھنا چاہا تو کیا لکھا :

امام یافعی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :

ساری کائنات میں نبیِّ پاک  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کے اوصاف وکمالات کاچرچاہےاور اگر ساری دنیا ان اوصا ف و کمالات کو شمار کرنے کیلئے جمع ہو جائے تو ان کے شمار کردہ اوصاف ایسے ہی ہیں جیسے سَمُنْدَر کے سامنے ایک قطرہ۔ [2]

آپ کی شان و عظمت کو جنہوں نے بیان کیا بالآخر یہی کہا :

زندگیاں ختم ہوئیں اور قلم ٹوٹ گئے

تِرے اوصاف کا اِک باب بھی پورا نہ ہوا

کوئی عشق و مستی میں ڈوبا لکھتا رہا ، لکھتا رہا ، تھک کر پھر یہی کہا :

لیکن رضا نے ختمِ سخن اس پہ کردیا

خالق کا بندہ ، خلق کا آقا کہوں تجھے

کسی نے اپنی بے بسی کا اعتراف یوں بھی کیا :

یَا صَاحبَ الجَمَال وَ یَا سَیِّدَ البَشر

مِن وَّجْہِکَ المُنیْرِ لَقَدْ نُوِّرَالقَمَر

لَا یُمکِنُ الثَّنَاءُ کَمَا کَانَ حقُّہٗ

بعد اَز خدا بُزرگ توئی قصہ مختصر

ترجمہ : اے حسن و جما ل والے ، اے انسانوں کے سردار آپ کے رخِ انور سےتوچاندبھی منوّر ہے ، آپ کی ثنا کا حق ادا کرنا تو ممکن ہی نہیں ، قصہ مختصر یہ کہ خدا کے بعد آپ ہی سب سے معزّز و بُزرگ ہیں۔

اوپر مذکور حدیثِ پاک میں ذکر ہوا کہ رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سب سے زیادہ اجر والے ہیں ، اس کی توضیح کچھ یوں ہے کہ ثواب بمعنی قرب و معرفتِ الٰہی جبکہ اجر بمعنی بدلہ اور نیکیوں کی تعداد ہے۔

اس معنی کی وضاحت بہارِ شریعت سے ہوتی ہے ، صدرُ الشّریعہ مفتی امجدعلی اعظمی  رحمۃُ اللہِ علیہ نے جنابِ صدیقِ اکبر اور حضرت عمر فاروقِ اعظم  رضی اللہُ عنہما  کی افضلیت کے بارے میں عقیدۂ اسلام بیان کرتے ہوئے لکھا ، جس کا خلاصہ یہ ہے :

انبیاومرسلین کےبعدتمام مخلوقاتِ الٰہی میں سےسب سے افضل صدّیقِ اکبر ہیں ، پھرعمر فاروقِ اعظم ، پھر عثمانِ غنی اور پھر مولیٰ علی  رضی اللہُ عنہم ، افضل کے معنی یہ ہیں کہ اللہ کریم کے یہاں زیادہ عزت ومنزلت والا ہو ، اِسی کو کثرتِ ثواب سےبھی تعبیر کرتے ہیں ، اِسے کثرتِ اَجَرْ نہیں کہتے ، کیونکہ کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ افضل سے زیادہ مفضول کو اجر مِل جاتا ہے ، جیسا کہ حدیثِ پاک میں سیّدنا اِمام مَہدی کے ساتھیوں کی نسبت آیا کہ اُن میں ایک کے لئے پچاس کا اجر ہے ، صحابہ نے عرض کی : اُن میں کے پچاس کا یا ہم میں کے؟فرمایا : بلکہ تم میں کے۔ [3]

 تو اجر(یعنی نیکیوں کی تعداد) اُن کے لئے زیادہ ہے ، مگر افضلیت میں وہ زیادہ ہونا تو بہت دور کی بات صحابۂ کرام کے برابر بھی نہیں ہو سکتے ، کہاں امام مَہدی کی رفاقت اور کہاں حضور سیّدِ عالَم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی صحابیت! اس کی مثال بلاتشبیہ یوں سمجھئے کہ سلطان نے کسی مہم پر وزیر اور بعض دیگر افسروں کو بھیجا ، اس کی فتح پر ہر افسر کو لاکھ لاکھ روپے انعام دئیے اور وزیر سے خالی رضا مندی اور خوشی کا اظہار کیا ، تو انعام یعنی بدلہ اگرچہ دوسرے افسروں کو زائد مِلا ، مگر کہاں وہ اور کہاں وزیرِ اعظم کا اِعزاز؟  [4]

بہارِشریعت کےا س کلام سے واضح ہوتاہے کہ ثواب اور اجر دونوں الگ الگ چیزیں ہیں۔

ہمیں معلوم یا پتا ہونا تو بہت دور کی بات ہمیں تو اس بات کا یقین ہے اور اس پر ایمان ہے کہ رسولِ مکرّم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کا ثواب ، معرفت ، قربِ ِالٰہی ، رفعت و منزلت سب کچھ ساری کائنات سے زیادہ اور اعلیٰ و ارفع ہے۔

اب حدیثِ پاک کے عملی پہلو کو دیکھنے کے لئے اس پر غور کیجئے کہ جو بھی رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی اتباع کرے گا اسے خود کو تو اجر ملےگا ہی اُس کےا ِس عمل کا اجر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں بھی جائے گا۔

حقیقت تو یہ ہے کہ حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  سے پہلےبھی کائنات میں جو کوئی بھی آیا ، جسےبھی ہدایت ملی ، جس نے بھی بارگاہِ الٰہی سے پروانۂ رضا و خوشنودی و نجات پایا سب حضورِ اکرم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  ہی کے صدقے و وسیلے سے پایا جبکہ اگر ہم رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دنیا میں تشریف آوری سے اب تک کے زمانہ کا خاکہ ذہن میں لائیں تو ہزاروں یا لاکھوں نہیں بلکہ لاتعداد حسنات (یعنی نیکیاں) ہیں جو اُمّت بجالائی اور ان کا اجر یقیناً رسولِ ذیشان  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں پیش ہوتاہے۔ ان نیکیوں میں سے اگر ہم صرف مساجد ہی کی بات کریں تو شمار قریب بہ محال ہے۔

اس وقت دنیا بھرمیں کتنی مساجد ہیں ، ان مساجدمیں پنج وقتہ ہونےوالےاذان واقامت ، باجماعت نمازیں ، خطباتِ جمعہ ، نوافل کااہتمام ، تلاوتِ قراٰنِ کریم ، درود و تسبیح ، وعظ و نصیحت کی مجالس ، اعتکافِ سنّت و نفل اور دیگر کثیر حسنات ایسی ہیں جو رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اِتّباع میں مساجد میں جاری ہیں یقیناً ان سب نیکیوں کے عاملین کےساتھ ساتھ ان کا اجر رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بارگاہ میں پیش ہوتا ہے۔

اب دنیا میں موجود مساجد کی تعداد کا اندازہ لگائیے چنانچہ 2019ء  کی ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں 3.8 ملین یعنی 38لاکھ سے زیادہ مساجدہیں اوریہ وہ ریکارڈ ہےجو مساجد ہر ملک کے سرکاری ریکارڈ میں درج ہیں جبکہ وہ مساجد جوگاؤں دیہاتوں ، جزیروں ، مسافرخانوں ، ہوٹلوں ، مارکیٹس اوردیگر عوامی جگہوں پر ہیں جو بطور مسجد رجسٹرڈ نہیں ہیں ان کا تو شمار ہی نہیں۔

ان مساجد کی برکت سے ہونے والی صرف ایک نیکی یعنی اذان ہی کا حساب لگائیں مثلاً اگر کوئی مسلمان مرد اذان کا ایک کلمہ سُن کر جواب دیتا ہے تو حدیثِ پاک کی روشنی میں2لاکھ نیکیوں کا اَجَرْ ملتا ہےاور پانچوں وقت کی اذان واقامت کاحساب لگائیں تو صرف ایک مسلمان نمازی مرد کے لئے 3کروڑ24 لاکھ نیکیوں کی بشارت ہے ، اب اگر 2019ء کی رپورٹ کےمطابق ہی مساجد کی تعدادکو شمار کریں تو ان میں ہزاروں مساجد ایسی ہیں جن میں ہر نماز میں کئی کئی سو اور ہزار نمازی ہوتے ہیں ، اگر فی مسجد اوسطاً صرف 50 افراد بھی اذان و اقامت کا جواب دینے والے شمارکریں تو 19کروڑ افراد بنتے ہیں جن کے روزانہ صرف پنج وقتہ اذان و اقامت کے جواب کےاجرکاحساب لگائیں تو6 ہزار 156ٹریلین نیکیوں کا اجر بنتا ہے۔

یاد رہے کہ ایک ٹریلین میں 10کھرب ہوتے ہیں اور ایک کھرب 100 ارب کا ہوتا ہے جبکہ ایک ارب100 کروڑ کا ہوتا ہے۔

یہ تو انتہائی محتاط اندازے کےمطابق صرف اذان و اقامت کے جواب کا حساب لگایا گیا ہے جبکہ دیگر کروڑوں نیکیاں ایسی ہیں جن میں فرائض ، واجبات ، نوافل اور سنتیں شامل ہیں جن پر قراٰن و حدیث میں ڈھیروں ڈھیر اجر کی بشارتیں ہیں ، ان سب کا اجر بھی رسولِ کریم  صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم  کی بارگاہ میں پیش ہوتاہے۔

ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ

* فارغ التحصیل جامعۃُ المدینہ ، نائب مدیر ماہنامہ فیضانِ مدینہ کراچی

 



[1] دارمی ، 1 / 141 ، حدیث : 515

[2] مراٰۃ الجنان ، 1 / 21ملخصاً

[3] ترمذی ، 5 / 42 ، حدیث : 3079

[4] بہارشریعت ، 1 / 247


Share

Articles

Comments


Security Code